پشتونوں پر خوف و وحشت کیوں کر مسلط کی جارہی ہے ؟خوشحال کاکڑ

کوئٹہ(آن لائن) پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین خوشحال خان کاکڑ اور شریک چیئرمین مختار خان یوسفزئی نے باجوڑ میں دہشتگردی کے دردناک واقعے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستانی ریاست کی دلچسپی پشتونوں کے قتل عام روکنے سے زیادہ وسائل لوٹنے میں ہے اس پشتونخوا وطن کو ترقی و خوشحالی دینے کی بجائے ہمارے عوام پر دہشتگردی، جہالت، بےروزگاری، مفلسی غربت مسلط کی گئی ہے اور اب انتہائی بے رحمی اور سفاکیت کے ذریعے ہم سے زندگی کا حق بھی چھین رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں جس میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ظلم اور بربریت کے واقعات کی سینکڑوں داستانیں موجود ہے جس میں ٹارگٹ کلنگ، بم دہماکوں، خودکش حملوں، بارودی سرنگوں کے پھٹنے میں ہزاروں افراد شہید اور شدید زخمی ہوئے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ اب تک اسکی روک تھام ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان تمام واقعات کا نشانہ صرف اور صرف پشتونخوا وطن اور اس کے معصوم عوام ہیں جبکہ دیگر علاقوں خصوصا پنجاب دہشتگردی کے ان واقعات سے محفوظ ہے۔ گو کہ ہم ہرعلاقے میں ہر قسم کی دہشتگردی کے خلاف ہے لیکن ہمارے عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ہم پر وحشت کی یہ حالت کیوں کر مسلط ہے اور ریاستی سیکورٹی و جاسوسی اداروں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں دہشتگردی کے واقعات کیوں اور کیسے ہو رہے ہیں؟ تمام افرادی قوت اور مطلوبہ وسائل سے لیس ریاستی سیکورٹی ادارے دہشتگردی کی روک تھام اور آمن وامان بحال کرنے میں کیوں ناکام ہے؟ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے ان واقعات کے پیچھے صرف اور صرف پشتون دشمن قوتوں کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ پشتونخوا وطن پر خوف و ہراس اور دہشتگردی مسلط اور جہالت کے اندھیروں میں دھکیل کرکے ہی عوام کو تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جاسکتا ہے اور اس کے بے شمار قدرتی وسائل پر قبضہ کرکے بآسانی لوٹے جاسکتے ہیں۔ پشتونخوا وطن میں دہشتگردی کے تمام واقعات کو ملک اور اسلام دشمنی سے جوڑنا پشتونخوا وطن کے عوام کو گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں اور یہ متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر نمک چھڑکانے کے مترادف ہے کیونکہ پشتونخوا وطن کے ہر باشعور فرد پر اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ دہشتگردی مسلط کرنے اور آمن وامان کی تباہی میں کن قوتوں کا ہاتھ ہے اور یہ سب کچھ کس مقصد کیلئے کیا جا رہا ہے۔

Daily Askar

Comments are closed.