پچھلے دن ، پورے ملک میں لوگوں نے حکمرانوں کی سنگ دلی اور بڑھتی مہنگائی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اطلاعات کے مطابق اکثر شہروں میں احتجاج 100 فیصد کامیاب رہا لیکن کہیں کہیں کچھ تجارتی تنظیمیں احتجاج رکوانے میں بھی کامیاب رہیں۔ دراصل ایسی تجارتی تنظیموں نے کسی نہ کسی طرح ہمیشہ غریب لوگوں کا خون پینے کا کردار ادا کیا ہے، ایسے تاجروں پر کبھی بھی کوئی بوجھ نہیں پڑا ، ان کی مثال ایسے لوگوں جیسی ہی ہے جو خیرات کی روٹی بھی پیٹ بھرکر کھاتے ہیں، خوشی کی دعوت میں بھی کھانا کھاکر پیٹ بھرتے ہیں. اس کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے کہ یہ لوگ کسی بھی طرح بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے اپنے اثاثے بڑھاتے رہیں اور ہر موجود سرکاری کے سرگنا ساتھی بنے رہیں.
بالکل انہی تاجروں کی طرح ہم بجلی کی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے ملازمین کو بھی دیکھتے ہیں.یہاں تک کہ وہ صرف اپنی تنخواہ اور مراعات کے سوا کچھ اور سوچنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ لوگ دوسروں کو اضافی یونٹ بھیجتھے وقت کبھی نہیں سوچتے کہ وہ مسکین لوگ اس بوجھ کو کیسے اٹھا سکتے ہیں؟!
اس وقت جب ملک کے اندر سب سے بڑا مسئلہ بجلی کے بلوں کی بڑھتی قیمت اور اضافی یونٹ لگاکر بھیجنے والی ظالمانہ روش ہے تو عوام بھی احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے بجلی تقسیم کرنے والی ایجنسیوں کے ملازمین سے بھی بجلی کے بل وصول کرنے اور ان کو میسر مفت بجلی یونٹ والی سہولت واپس لینے کی درخواست کر رہی ہے ۔ تاہم جو بات سامنے آئی ہے اس کے مطابق ان اداروں کے ملازمین کو بالترتیب گریڈ 1 سے گریڈ 4 تک 100 یونٹ ، گریڈ 5 سے گریڈ 10 تک 150 یونٹ، گریڈ 11 سے 16 تک 300 یونٹ، گریڈ 17 کو 450 یونٹ ، گریڈ 18 کو 600 یونٹ،
گریڈ 19 کو 880 یونٹ،
گریڈ 20 کع 1100 یونٹ اور
گریڈ 21/22 کے ملازمین کو 1300 یونٹ مفت بجلی ملتی ہے. سال 2022 ع کے دوران ، 1 لاکھ 79،000 ملازمین کو 34 کروڑ ، 40 لاکھ فری یونٹ استعمال کرنے کیلئے دیے گئے، جس کی کل لاگت 8 ارب 19 کروڑ روپے بنتی ہے.
اس کے علاوہ ، بہت سارے دوسرے اداروں کے اعلیٰ حکام کو بھی استعمال کے لئے مفت بجلی یونٹ دیئے جاتے ہیں.
اس کے نتیجے میں پورے ملک میں بجلی کے ایک یونٹ پر لاگت 6.5 روپے لگتی ہے ، لیکن یہی یونٹ عام صارفین کو 50 سے 70 روپے کی بڑی رقم کے عوض فراہم کیا جاتا ہے۔
اب عوام نیند سے جاگ اٹھی ہے اور اس ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے.
عوام اب صرف نیند سے جاگ کر خالی احتجاج کرنے ہی نہیں نکلی بلکہ بہت غصے میں اب اپنا حق مانگ رہی ہے. ایک اطلاع سننے کو ملی ہے کہ
راولاکوٹ کے آس پاس کے ایک گاؤں کے رہائشیوں نے واپڈا حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ ان لوگوں کی زمینوں میں لگے ہوئے بجلی کے کھمبے اور گزرتی تمام تاروں کو ہٹادیں۔ تاہم جب سے تاروں کو ان کی زمینوں پر نصب کیا گیا تھا ، انہیں اس عرصہ دراز سے معاوضہ بھی ادا کردیا جانا چاہئے، اور جتنے درخت بجلی کی تاروں سے دور ہٹانے کے لئے کاٹے گئے ہیں ،ان کا معاوضہ بھی ان کو ادا کیا جانا چاہئے.
اس خبر کے سامنے آنے کے بعد ملک کی بیشتر مایوس عوام یہ سوچ رہہ ہے کہ جب بجلی میٹر کی پوری رقم صارف سے وصول کرلی جاتی ہے ، تو پھر کون سے میٹر کا ماہانہ کرایہ دوبارہ وہ بھی ہر ماہ وصول کیا جاتا ہے؟!
لوگ سوچتے ہیں لہذا اب یہ بہتر ہے کہ عدالتوں میں کیس درج ہوں تاکہ بجلی کے تار جہاں کہیں بھی عوام کے گھروں پر سے گزرتے ہوں ، وہاں ان لوگوں کو بھی معاوضہ دیا جائے، زمینداروں کو ان کی زمینوں میں لگے کھمبوں اور گزرتے تاروں کا معاوضہ دیا جانا چاہئے. کیونکہ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت ، عام لوگ ، کاشتکار ، مزور بھی اتنے ہی معزز شہری ہیں جتنا یہ واپڈا کے ملازمین، دوسرے حکام ، جج ، سیاستدان مشیر اور وزیر معزز جانے جاتے ہیں۔
جہاں تک اس سارے بحران کے حل کا تعلق ہے ، نگراں حکومت کے کچھ وزراء کا خیال ہے کہ عوام کو رلیف مہیا کیا جائے، لیکن کچھ وزراء ایسے بھی ہیں جوکہ آئی ایم ایف کے ساتھ دستخط شدہ معاہدے کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جاسکتی ہے. یقینا اس حکومتی موقف کے ساتھ ہم اتفاق کرتے ہیں کہ قیمتوں کو کم کرنا مشکل ہے ، لیکن حکومت کوبھی یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ عام لوگوں کے کاندھوں سے بوجھ کم کرنا بلکل ممکن ہے. عام لوگوں کے کندھوں سے بار کو کم کرنے اور حکومتی خزانے کو مستحکم کرنے کے لیے سرکاری اخراجات کو کم کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ ان اخراجات کو کم کرنے کے لئے ملکی اداروں کے ڈھانچے کو بہتر بنانا ہوگا.
ماضی قریب کا جائزہ لیا جائے تو سیاسی رشوت کے تحت اپنے اسیمبلی میمبران کو خوش کرنے کیلئے وزارتیں بڑھا کر وفاقی وزراء ، وزراء مملکت ، مشیروں ، پارلیمانی سکریٹریوں کے طور پر تقرری کردی گئی۔ اداروں کے ڈھانچے تبدیل کرکے من پسند اداراتی سکریٹریوں کے ساتھ خصوصی سکریٹریوں کی پوسٹوں افسران کو مقرر کیا گیا ، اس عمل سے ایک طرف وزراء و افسران اعلیٰ کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تو دوسری طرف بہت سارے لوگوں کو بدعنوانی کا موقع فراہم کیا گیا۔ درحقیقت ، ہر وفاقی وزیر ، وزیر مملکت ، پارلیمانی سکریٹری ، وفاقی سکریٹری ، خصوصی سکریٹری نے یقینی طور پر اپنی طرف سے اپنا کچھ بینک بیلنس بڑھانے کی کوشش تو یقینن کی ہوگی.
صوبوں ۾ میں بھی اسی طرح کے روایت نظر آتی ہے ، بہت سے نئے ادارے قائم کیے جانے کے اعلانات ہوتے رہے اور بہت سے ادارے بیچنے کی کہانیاں گردش کرتی رہیں اور کر رہی ہیں۔
لیکن یہاں یہ خیال کیا جانا چاہئے کہ اداروں کو فروخت یا ختم کرنے کے بجائے ، موجودہ اداروں کو بہتر بنایا جانا چاہئے.
نئے اداروں کے قیام کے بجائے بڑی تعداد میں موجود بڑے عہدوں کو کم کیا جانا چاہئے
وزارتوں کو ایک دوسرے میں شامل کرکے ان کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ 12 سے 16 تک مربوط کیا جانا چاہئے. ریاست کی وزارتیں ۽ پارلیمانی سکریٹریوں کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے ان عہدوں کو ختم کردیا جانا چاہئے. خصوصی سکریٹریوں کو ان عہدوں پر مقرر کیا جانا چاہئے جہاں ان کی ضرورت ہے اور عہدے خالی پڑے ہیں. نیز مفت بجلی ، گیس ، فون اور پیٹرول کی مفت فراہمی ان تمام افسران، وزراء ، مشیروں سے واپس لی جانی چاہئے، کیوں کے کیا ان کے پاس رہنے کے لئے مفت گھر ، سفر کے لئے ایک گاڑی ۽ خدمت کیلیے ملازم کا ہونا کافی نہیں ہے؟! سچ تو یہ ہے کہ یہ سہولیات ان کو دوسرے عام چھوٹے ملازمین سے منفرد اور محتر5 دکھانے کے لئے کافی ہیں.
عام لوگوں کے کندھوں سے بوجھ کم کرنے کے لئے ٹیکس کا نظام بہتر بنا کر دوسرے تمام ٹیکسوں کو حذف کرکے، ہر ایک سے فقط خریداری ٹیکس وصول کرنا لازم بنایا جائے، اس سے ملکی خزانے میں اضافہ ہوگا اور معاشی بہتری بھی آئیگی۔
اگر حکومت ایسا کوئی عمل اختیار نہیں کرسکتی ہے اور سمجھتی ہے کہ طاقت کو زور پر بجلی کے بل نافذ العمل ہوں گے ، احتجاج کو ہونے سے روکنا ممکن ہوگا ،تو یہ حکومت کی ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو اتنا ستایا ہے کہ عوام کا خیال ہے جیل میں یقینن دو وقت کی روٹی میسر ہوگی۔ وہ جیل میں ہونگے تو اپنے کسی بیمار اور بھوکے بچے یا رشتہ دار کو مرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھیں گے. ویسے بھی کانوں کے ساتھ درد بھری کہانیاں سننے سے روح اتنا زخمی نہیں ہوتا جتنا آنکھوں سے اپنوں کو بھوکے تڑپتے دیکھنے سے گھایل ہوتا ہے.
Comments are closed.