نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے ”دی اکانومسٹ“ میں شائع ہونے والے سابق چیئرمین پی ٹی آئی سے منسوب آرٹیکل کو پیس آف پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا ہے

\:نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے ”دی اکانومسٹ“ میں شائع ہونے والے سابق چیئرمین پی ٹی آئی سے منسوب آرٹیکل کو پیس آف پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی پر سنگین الزامات ہیں، وہ آزاد شہری نہیں ہیں، قانون کی روح سے وہ سزا یافتہ ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کا لکھا ہوا آرٹیکل کسی دوسرے کے نام سے شائع کر دیا جائے، کیا ”دی اکانومسٹ“ نے جیل میں موجود کسی دوسرے لیڈر کو یہ سہولت دی ہے؟ 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے قائم ہونے والی کابینہ کمیٹی ٹی او آرز کے تحت اپنا کام کرے گی، الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت کی کسی سرگرمی کا حصہ نہیں بن سکتے، ہمیں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر مکمل اعتماد ہے، الیکشن کمیشن کی مالی، انتظامی ضروریات پوری کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو ”جیو نیوز“ اور ڈان نیوز“ کے پروگراموں میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ایک سوال کے جواب میں نگران وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے ہر کیس کی الگ سے تفتیش اور تحقیق ہو رہی ہے۔ کابینہ نے مناسب سمجھا کہ 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے مجموعی طور پر تحقیقات کی جائیں، اس ضمن میں کابینہ نے کمیٹی تشکیل دی۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے کیسز چل رہے ہیں، یہ عمل رکے گا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے مجموعی طور پر 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے دیکھنا ہے کہ یہ واقعات کیوں ہوئے اور آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں اور مستقبل کے لئے قانونی فریم ورک کیا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نوٹیفیکیشن میں دیئے گئے ٹی او آرز کے تحت اپنا کام کرے گی اور اپنی سفارشات مرتب کرے گی جبکہ وزارت داخلہ کمیٹی کو سیکریٹیریل سپورٹ فراہم کرے گی۔ کمیٹی میں ضرورت کے تحت کسی اور رکن کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے بارے میں مجموعی تصویر کشی کی ضرورت ہے کہ کس طرح منصوبہ سازی کی گئی، اس کا مقصد کیا تھا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیر قانون کمیٹی کے کنوینر ہیں، کمیٹی نے ابھی اپنا اجلاس نہیں بلایا۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے پاس سفارشات مرتب کرنے کے لئے دو ہفتے کا وقت ہے، کمیٹی 9 مئی کے حوالے سے واقعات کی تفصیلات اکٹھی کر کے مجموعی سفارشات مرتب کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر تمام کام مستقبل کی حکومتوں نے کرنا ہے تو پھر ہمارا کوئی رول باقی نہیں بچتا، نگران حکومت آئینی حکومت ہے، لاءانفورسمنٹ اور مستقبل کے حوالے سے ہم جو کچھ کر سکتے ہیں، کریں گے، جو کام نہیں کر سکے، وہ مستقبل کی حکومت کو ہینڈ اوور نوٹ کے ساتھ سونپ کر جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں ہمارے پاس جو بھی معلومات ہوں گی اس ملک کے اداروں کی طرف سے دی گئی ہوں گی، ان کی روشنی میں ہم اپنی سفارشات مرتب کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوئی ٹربیونل یا عدالت نہیں، ہم کسی کو سزا نہیں دے رہے، آئین اور قانون کی روشنی میں ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مستقبل میں کوئی حکومت اس طرح کا کمیشن بنانا چاہے تو اس کا اختیار ہے۔ ایک سوال پر مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ کسی کے سوال کرنے پر کوئی پابندی نہیں، تنقید ہر ایک کا حق ہے، ہم اس حق کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب نگران حکومت آئی تو معیشت کی صورتحال سب کے سامنے تھی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی سمیت سمگلنگ اور بجلی چوری کے چیلنجز درپیش تھے، نگران حکومت نے محدود وقت میں اپنی ترجیحات کے علاوہ بھی بہت سے کام کئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارا کام جج صاحبان کے فیصلوں پر تبصرہ کرنا نہیں، ہمارا کام عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا ہے، ملک تبھی چلے گا جب عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درآمد ہوگا۔ الیکشن کے التواءسے متعلق سینیٹ میں پیش کی جانے والی قرارداد کے حوالے سے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سینیٹ کے کچھ ارکان نے یہ قرارداد پیش کی، چیئرمین سینیٹ نے رولز معطل کر کے قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی، سینیٹ آف پاکستان کے معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت انتخابات کا شیڈول دینا یا تبدیل کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے چکا ہے، ہمارا کام اس کی معاونت کرنا ہے، ہم الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت کی کسی سرگرمی کا حصہ نہیں بن سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سیکورٹی فورسز کی استعداد ہے کہ ہم سیکورٹی کی موجودہ صورتحال میں انتخابات میں جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سمیت دوسرے سیاسی رہنماؤں کو سیکورٹی فراہم کرنا انتظامیہ اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، ہم اپنی یہ ذمہ داری پوری کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی انتخابی تاریخ میں شدید موسم اور سیکورٹی کی خراب صورتحال میں بھی الیکشن منعقد ہوئے ہیں، ہمیں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر مکمل اعتماد ہے، الیکشن کمیشن کی مالی، انتظامی ضروریات پوری کرنا ہماری ذمہ داری ہے، ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے، آئندہ بھی پوری کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں نگران وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ”دی اکانومسٹ“ میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی سے منسوب آرٹیکل پیس آف پروپیگنڈا ہے، ہماری معلومات کے مطابق اس طرح کا کوئی مضمون انہوں نے نہیں لکھا اور نہ ان کی طرف سے بھیجا گیا ہے، جیل کے اندر سے نہ کوئی چیز باہر گئی اور نہ کوئی چیز اندر آئی۔ انہوں نے کہا کہ صحافت میں سورس کی بہت اہمیت ہوتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کا لکھا ہوا آرٹیکل کسی دوسرے کے نام سے شائع کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ”دی اکانومسٹ“ میں شائع ہونے والا سابق چیئرمین پی ٹی آئی کا آرٹیکل پیس آف پروپیگنڈا ہے،”دی اکانومسٹ“ کو اس گھوسٹ آرٹیکل کے بارے میں تفصیل کے ساتھ لکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی پر سنگین الزامات ہیں، وہ آزاد شہری نہیں ہیں، سزا معطل ہونا اور ختم ہونا الگ باتیں ہیں، توشہ خانہ کا کیس معطل ہے، ختم نہیں ہوا، قانون کی روح سے سابق چیئرمین پی ٹی آئی سزا یافتہ ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک شخص نے جیل کے اندر سے کوئی چیز تحریر نہیں کی تو کیا گھوسٹ آرٹیکل بھی چھاپے جائیں گے؟ کیا ”دی اکانومسٹ“ نے جیل میں موجود کسی دوسرے لیڈر کو یہ سہولت دی ہے؟ آصف علی زرداری کے انٹرویو سے متعلق اپنے ٹویٹ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری سابق صدر ہیں، وہ سزا یافتہ نہیں تھے، جب آصف علی زرداری کا انٹرویو ایک سینئر صحافی نے کیا تھا لیکن اُس وقت اِس انٹرویو کو چلنے نہیں دیا گیا، میرا ٹویٹ اِس پس منظر میں تھا اور میں اپنے ٹویٹ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا سابق چیئرمین پی ٹی آئی اس طرح کے تنقیدی انٹرویو کے لئے تیار ہوں گے؟ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے اپنے چار سال کے دوران کسی تنقیدی صحافی کو کوئی انٹرویو نہیں دیا، جب وہ برطرف ہوئے تو بھی انہوں نے کسی تنقیدی صحافی کو کوئی انٹرویو نہیں دیا، آج بھی وہ کسی تنقیدی صحافی کو انٹرویو نہیں دے پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”دی اکانومسٹ“ میں شائع ہونے والے گھوسٹ آرٹیکل کا سابق صدر آصف علی زرداری کے انٹرویو سے کوئی موازنہ نہیں بنتا۔

Daily Askar

Comments are closed.