لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی حب میں ریلی

حب بلوچستان اورملک بھر بلوچ طلباءسمیت و دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے ہفتہ کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی نکالی گئی ریلی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی سمیت طلباء،لاپتہ افراد کے لواحقین مرد خواتین اور بچوں نے شرکت کی ریلی کے شرکاءنے اپنے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے اور انہیں رہاکرنے کے بینزاور پلے کارڈز اور بلوچ لاپتہ افراد کے پوسٹرز اٹھا کر کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کا گشت کیا اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرو کے نعرے لگائے ریلی مینRCDشاہراہ سے ہوتی ہوئی لسبیلہ پریس کلب کے سامنے پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی اس موقع پر ریلی کے شرکاءسے بلوچ یکجہتی کمیٹی حب کے آرگنائزر عارف بلوچ ، BSO(پجار ) کے سابق چیئرمین واحد رحیم بلوچ ،ہیومن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن قلات ڈویژن بلوچستان کے صدر عبداللہ بلوچ ،سیمابلوچ ،ماہ زیب بلوچ ،اسرار بلوچ ،محمد اسحاق میروانی نے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں 1948سے لیکر اب تک بلوچوں بلخصوص بلوچ طلباءکو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا بلوچستان میں ایسی صورتحال پیدا کی گئی ہے کہ بلوچ نہ تو تعلیمی اداروں اور نہ ہی اپنے گھروں میں محفوظ ہیں انہیں گھروں اور تعلیمی اداروں سے اٹھا کر لاپتہ کیا جاتا ہے جب بلوچ اپنے حقوق کےلئے آواز بلند کرتے اور جدوجہد کرتے ہیں تو انہیں دہشت گرد اور دشمن تصور کیا جاتا ہے انھوں نے کہاکہ ملک میں عدالتیں موجود ہیں اگر لاپتہ افراد نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں منظر عام پر لاکر عدالتوں میں پیش کیا جائے انھوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کے لواحقین ہر روز اپنے پیاروں کی بازیابی کے منتظر ہیں اور یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ایک نہ ایک دن انکے پیارے اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے انھوں نے کہاکہ رانا ثناءاللہ نے لاپتہ افراد کے کیمپ آکر انہیں انکے پیاروں کی بازیابی کی یقین دہانی تو کرائی اب بھی اپنے باتوں کو بھول چکے ہیں جبکہ سردار اختر مینگل نے بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے خاموشی اختیار کرلی ہے انھوں نے کہا کہ جب مسلم (ن) اقتدار میں نہیں تھی تو مریم نواز بھی لاپتہ افراد کے کیمپ میں ان سے اظہار یکجہتی کی اور انہیں بعض معاملات پر یقین دہائی اور اقتدار میں آنے کے بعد وہ بھی خاموش ہو گئی ہے لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے لب کشائی تک نہیں کر رہی انھوں نے بلوچستان میں اب بھی بلوچ طلباءکو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے طلباءنہ کالجوں ،یونیو رسٹیوں اور نہ ہی اپنے گھروں میں محفوظ ہیں جبکہ حکمرانوں کو بلوچوں کو اذیت دینے کے علاوہ کچھ نہیں آتا اور لاپتہ افراد کے لواحقین گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی ومنظم عام پر لانے کی اپیلیں کر کرکے تنگ چکے ہیں کہ ان کے پیاروں کو صحیح سلامت ان تک پہنچایا جائے مقررین نے مزید کہاکہ جن کے لخت جگر لاپتہ ہیں اس درد کا احساس وہ کر سکتے ہیں ہمیں سڑکوں پر نکلنے کا کوئی شوق نہیںہے حالات سے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کردیا ہے اگر اسی طرح سے بلوچوں پر ظلم کا سلسلہ جاری رہا تو نفرتیں کبھی ختم نہیں ہونگی انھوں نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی حب کی جانب سے لاپتہ بلوچ و دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسنگ پرسنز کی بازیابی کے حوالے سے ریلی نکالنے کے سلسلے میں حب کی تمام قوم پرست سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جو نیشنلزم پارٹیاں بلوچ وساحل وسائل کے دعویدار ہیں وہ نام نہاد سیاسی پارٹیوں ریلی میں شریک ہی نہ ہوئے سانھوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ صرف ہمارا نہیں ہے بلکہ پورے بلوچستا ن کے لوگوں کا ہے کیونکہ 2008سے بلوچوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اب تک تسلسل سے جاری ہے انھوں نے کہاکہ جبری گمشدگی بلوچستا ن کے سنگین مسائل میں سے ایک ہے آئے روز طلباءکو انکے ماﺅں کے سامنے بازاروں سے تعلیمی اداروں سمیت مختلف جگہوں سے جبری گمشدگی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے انھوں نے کہاکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسئلہ ایک تنظیم یا پارٹی کا نہیں بلکہ ایک پورے بلوچ قوم کا مسئلہ ہے بلوچ قوم کے بچے بزرگ و خواتین کوئی بھی جبری گمشدگی سے محفوظ نہیں جب جبری گمشدگی جیسے مسائل کا سامنا کرنا ہوتو اجتماعی جدوجہد فرض بن جاتی ہے تمام اپنے اختلافات ایک جانب رکھ کر اپنے قوم کےلئے یک مشت ہوجائیں آپ کی ایک کاوش کسی ماں کے لال کو زندانوں سے آزاد کر سکتا ہے ۔

Daily Askar

Comments are closed.