کوئٹہ(یو این اے )بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے مرکزی صدر راجی راہشون وصوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے کہاہے کہ جس ملک کی آب وہوا اچھی ،زیر زمین معدنیات اور سمندر کے ساتھ زراعت ولائیواسٹاک جیسے شعبے ہوں وہ ملک کبھی بھی معاشی طورپر کمزور نہیں ہوسکتابشرطیکہ استحصالی اور بدنیتی پرمبنی سوچ اور پسند وناپسندی کا رحجان نہ ہوں اگر بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لاناہے توپھر انصاف کے تقاضوں کے مطابق آبادی کی بجائے رقبہ ،پسماندگی ودیگر کوبنیاد بناکر وسائل تقسیم کرنے ہونگے ،بلوچستان میں سیکورٹی کے نام پر 60ارب سے ایک ہزار نوجوانوں کو بیرون ممالک میں بہترین اعلیٰ تعلیم دلائی جاسکتی ہے ، پاکستان کامستقبل جمہور اورجمہوریت میں ہے جمہوری طریقے سے پاکستان کوچلایاجائے عوام کی مینڈیٹ اور حق رائے دہی تسلیم کیاجائے توصحیح لوگ اسمبلیوں میں آئیںگے جوعوام کی خاطر قانون سازی کرینگے میں بندوق کومسترد کرتاہوں اور علم کی طاقت کومانتاہوں جہالت سے نفرت اور روشنی کاساتھی ہوں ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی آف ایگریکلچر کوئٹہ کی اپ گریڈیشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر سابق صوبائی وزیر رکن صوبائی اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی ،سیکرٹری زراعت محمد طیب لہڑی ودیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے ۔زمانہ قدیم میں سب سے بڑی دولت علم مسلمانوں کے پاس تھی لیکن جب یورپ سنبھل گئے توپھر آکسفورڈ جیسے ادارے بنائے ،آج دنیا پر مغربی دنیا کا قبضہ ہے اور ہم کچکول لیکر آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں ترقی ایک قوم ،معاشرے یا ملک کی خاطر کوئی لاکر ہاتھ میں نہیں رکھتا سرزمین کے حوالے سے دل میں درد رکھنے والے لوگ دانشورز، ادیب ودیگر اس کو ذمہ داری سمجھ کر آگے بڑھتے ہیں ،ہوناتویہ چاہےے تھاکہ بلوچستان کے ہر ضلع میں آڈیٹوریمز اور یونیورسٹیاں ہونی چاہےے تھی لیکن وقت اور حالات واستحصالی سوچ نے ہمیں یہاں تک پہنچایاکہ علم صرف اسلام آباد ،لاہور والوں کیلئے جبکہ باقیوں کیلئے کچھ نہیں ،اس سوچ نے ملک کو کمزور کردیاہے ،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے ملک کو کمزور کردیاہے ،استحصالی سوچ سے کسی بھی معاشرے میں ترقی ممکن نہیں ہوگی ،آب وہوا، سمندر ،زراعت ،لائیو اسٹاک ،زیر زمین معدنیات اور دنیا سے رابطہ ہوں تووہ ملک معاشی طورپر کمزور نہیں ہوگا لیکن یہاں استحصالی سوچ، پسند وناپسند اور بدنیتی نے اس ملک کو معاشی طورپر کمزور کردیاہے اگر بلوچستانیوں کو 75سالوں میں موقع دیاجاتا تو یہاں ہزاروں سائنسدان بنتے ،ملک کومافیا کے طورپر چلایاجائے تووہاں یونیورسٹیاں نہیں بلکہ تباہی کے اسباب پیدا ہونگے ،پاکستان کی جی ڈی پی منفی ،ریزور 4ارب پر جا کررک گیا اور افغانستان جیسا جنگ زدہ علاقہ لوگ توکہتے تھے کہ ان کے پاس ایک بڑا چادر ہے لیکن انہوں نے روس اور نیٹو کوشکست دیافرنگیوں کو شکست دیا اور آج اپنی سرزمین کے مالک خود ہیں ایک ماہ قبل وہاں ایک بہت بڑی ریفائنری کاافتتاح کیاگیا چین کے وزیر پیٹرول نے افگانستان کے وزیر پیٹرول کے ساتھ جو ایک چادر میں کھڑا تھا پھٹے پرانے کپڑے پہن کر بغےر جوتوں کے کھڑا تھا ایک آئل ریفائنری کا افتتاح کیا۔معاہدے میں 70فیصد افغان حکومت اور 30فیصد چین کودیاجاتاہے لیکن ہمارا ریکوڈک کوڑیوں دام فروخت ہوتاہے ہمیں کوئی پروا نہیں ہوتی ،ریکوڈک کے معاملے میں10فیصد اورموجودہ حکومت میں 25فیصد کی بات ہوئی بی این پی(عوامی) صوبے کی قیمتی دولت کو کوڑیوں کے دام دینے کیلئے تیار نہیں ،آئین میں لکھاہواہے کہ جہاں کہیں منرل نکلتے ہیں اس کے 50فیصد اس علاقے اور صوبے پر خرچ کئے جاتے ہیں ،میں نے سوال کیاکہ کیا یہاں آئین سے بھی کوئی بالاترہے ؟کہ آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے میں نے اپنی ضمیر کے مطابق آواز ریکارڈ کیا بی این پی(عوامی) کے ورکرز آج ہر جگہ سینہ تان کر کہیں جاتے ہیں ۔زندگی کی بہتری اور خوبصورت بنانے کیلئے غلامی کی ذہنیت سے نکلنا ہوگامسائل سے نجات کاواحد حل اتحاد،یکجہتی اور اتفاق ہے ،نعروں کے پیچھے نہیں جاناچاہےے جہاں سے ہم منتشر ہوتے ہیں جہاں سے پریشانیاں ہوں یا دلدل میں پھنس جائیں ،بلوچستان کی ترقی کو روکنے کیلئے سیاسی مفادات کیلئے بہت سے نعرے لگائے گئے کہ پشتونوں اور بلوچوں پر ظلم ہورہاہے دونوں مظلوم اقوام کوئی یہاں حکمرانی نہیں کررہا آپس میں لڑانے کیلئے نعرے دئےے جارہے ہیں چمن سے کاہان ،گوادر سے ژوب تک ہم سب بلوچستانی ہیں ،جب افغان بحیثیت افغانستان آگے بڑھ سکتاہے ایران آگے بڑھ سکتاہے توہم بلوچستانی بھی آگے بڑھ سکتے ہیں ہمیں ہوش کاناخن لیناچاہےے پاکستان کامستقبل جمہور اورجمہوریت میں ہے جمہوری طریقے سے پاکستان کوچلایاجائے عوام کی مینڈیٹ اور حق رائے دہی تسلیم کیاجائے توصحیح لوگ اسمبلیوں میں آئیںگے جوعوام کی خاطر قانون سازی کرینگے ایسے لوگ جو اپنانام نہیں جانتے سیاست سے ناواقف ہیں ایسے لوگوں کو پیراشوت میں لاکر اسمبلی پہنچایاجاتاہے ،ملک کیلئے درد رکھنے والے لوگ آئین کی خلاف ورزی نہیں کرتے ،وسائل کی منصفانہ تقسیم کرتے ہیں ۔اسلام آباد میں مشترکہ مفادات کونسل کااجلاس ہے جہاں پاکستان کی آبادی25کروڑ اور بلوچستان کی آبادی2کروڑ 10لاکھ لیکن اس آبادی کو بھی تسلیم نہیں کیاجارہا ،جب بھی مردم شماریاں ہوئیں بلوچستان کے لوگ ناواقف تھے اب لوگوں کو محسوس ہواکہ وسائل کی تقسیم صرف آبادی کی بنیاد پر ہوگی اگر بلوچستان میں 2کروڑ10لاکھ کی آبادی ہے اس میں کیا نقصان ہے
Comments are closed.