میں نے عمران خان کی اس بات سے کبھی اتفاق نہیں کیا کہ یوٹرن لینے والا اچھا لیڈر ہوتا ہے۔

میں نے عمران خان کی اس بات سے کبھی اتفاق نہیں کیا کہ یوٹرن لینے والا اچھا لیڈر ہوتا ہے۔ ایک اچھا لیڈر تمام حالات کا تفصیلی اور گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد کوئی فیصلہ کرتا ہے اور اسوقت تک اپنے فیصلے کو نہیں بدلتا جب تک زمینی حقائق نہ بدل جائیں۔ کسی بھی ملک میں سیاسی صورتحال جامد نہیں ہوتی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صبح ایک فیصلہ ہو اور رات ہونے تک یا اگلی صبح یوٹرن لے لیا جائے۔

میں نے یہ تمہید اسلئی باندھی کے ۲۰۱۹ سے ۲۰۲۱ دسمبر تک میں تمام سیاسی لیڈروں سے ہاتھ جوڑ کر یہ التجا کرتا رہا کہ قومی سیاسی مزاکرات کے ذریعہ نظام میں اصلاحات کی جائیں اور پھر ایک صاف شفاف الیکشن مگر کوئی نہ مانا۔ ۲۰۲۲ اپریل کی پنڈی کی ایماء پر لائی گئی عدم اعتماد سے زمینی حقائق یکسر بدل گئے۔ نواز شریف، زرداری، شہباز شریف اور مولانا نے صرف اور صرف پنڈی کو خوش کرنے کیلئے عدم اعتماد کا غیر سیاسی فیصلہ کیا۔ جسے وہ ریاست بچانے کا نعرہ دے رہے تھے وہ بنیادی طور پر پنڈی خوش عمل تھا کیونکہ پنڈی اپنے آپ کو ہی ریاست سمجھتا ہے اور باقی سب غلام۔ اس کے بعد قومی سیاسی مزاکرات کی کھڑکی بند ہو گئی اور یہ واضع ہوا کہ تمام سیاسی پارٹیوں میں موجود پنڈی لیبارٹری سے نکلی سیاسی قیادت کسی قسم کا صحیح فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس کے بعد اپریل سے نومبر ۲۰۲۲ تک میں نے مکمل خاموشی اختیار کی اور شاعری سے آپ کا دل بھلایا۔ سوچا شائد اس سے بات آپکی سمجھ میں آئے مگر آپ سمجھ کر نہ دئے۔

دسمبر ۲۰۲۲ میں میں نے اپنی سیاسی پوزیشن بدلی اور قومی سیاسی مزاکرات کے بجائے آپکے سامنے پر امن طریقے سے مائنس آل کا تصور پیش کیا جس کے بعد نظام میں اصلاح اور پھر صاف شفاف الیکشن۔ اصلاحی پروگرام بھی آپکے سامنے رکھا جس میں میثاق عوام کے چودہ نکات، ججوں سے مطالبات، فوج سے مطالبات اور بڑے کاروباریوں سے مطالبات بھی شامل تھے۔ آج میں آپکی خدمت میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ پرامن طریقے سے مائنس آل کی کھڑکی ہمیشہ کھلی نہیں رہے گی۔ جس تیزی سے حالات بدل رہے ہیں قومی سیاسی مزاکرات کی طرح یہ کھڑکی بھی بند ہو جائے گی۔ میرا کام آپکو اطلاع دینا ہے اور راستہ بتانا ہے۔ ملک کو صحیح راہ پر ڈالنا کسی ایک جعلی مسیحا کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مجھے خونی انقلاب کی چاپ سنائی دے رہی ہے اور پر امن مائنس آل کی کھڑکی بند ہو گی تو یہی ہوگا۔

دو دن سے خبر گرم ہے کہ آرمی چیف کچھ بڑے کاروباری لوگوں سے لاہور اور کراچی میں ملے۔ ان دونوں طاقتور طبقوں نے مل کر ایکدوسرے کو اس ملک پر اپنا قبضہ رکھنے کی تجاویز دیں۔ کاروباریوں کو اس ملک کی فکر ہوتی تو اس ملک کی معیشت کو تاریک گلیوں سے روشنی میں لاتے۔ ہر سودے کا مکمل ریکارڈ رکھتے اور جائز ٹیکس سرکار کو دیتے۔ میں آپکو پہلے ہی بتا چکا ہوں بڑے کاروباری اور فوج کا آپس میں معاہدہ ہے کہ ایکدوسرے کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔ فوج کو سیاسی انجیرنگ کیلئے پیسہ یہی کاروباری مۂیا کرتے ہیں جس کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا سارا کام کیش میں ہوتا ہے۔ یہ جو چینی کے ڈان یا ہاوسنگ سوسائیٹیوں والے سیاسی پارٹیوں کو اربوں دیتے ہیں یہ سب پنڈی کے اشارے پر ہوتا ہے۔

اگر آپکو یاد ہو میرے فوج سے مطالبات میں یہ شامل تھا کہ کاروباری لوگوں کی ان سے ملاقات پر پابندی ہونی چاہئے۔ آرمی چیف اور لاہور کے کور کمانڈر نے کھلم کھلا اپنی آئینی حد کو پار کیا مگر کوئی ہے جو انہیں روکے۔ اس کے بعد کراچی میں ایک سرمایہ کانفرنس ہوئی جس میں باوردی لوگوں نے ایس آئی ایف سی کے بارے میں معلومات دیں۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی کے اس کا ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو ہے۔

آپ اندازہ لگائیں کہ تمام سرکاری ادارے ناکارہ اور کرپٹ ہیں مگر فائل پنڈی سے چلے گی تو سب کام فٹافٹ ہو جائینگے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ساری وزارتیں بند کردیں پیسہ بچائیں اور سارے کام فوج کے حوالے کر دیں۔ مگر ان سے اپنا کام ہو نہیں رہا دفاعی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اس سال ۱۲۶ فوجی جوانوں اور افسروں نے شہادت پائی جبکہ ۲۶ دھشتگرد مارے گئے۔ یعنی ۳:۱ کا تناسب رہا۔ یہ لمحہ فکریہ ہے اور جرنیل اس پر فکر مند ہونے کے بجائے کاروباری لوگوں سے خوشامد لینے میں مصروف ہیں۔ آپ نے کسی ایک بھی ملک میں یہ سنا ہے فوجی جرنیل سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہوں۔ انہیں سامنے دیکھ کر تمام قابل سرمایہ کار ملک سے دور بھاگینگے۔ مائکروسوفٹ، گوگل، امازان، ایپل، ٹیسلا، اور دوسری معروف کمپنیاں پاکستان جیسے ملکوں سے دور بھاگتی ہیں جہاں باوردی ہر فیصلے پر قابض ہوں اور ججوں کے فیصلوں پر کوئی سرکاری ادارہ عمل کرنے کو تیار نہ ہو۔ محمد بن سلمان اور یو اے ایی کو بھی معلوم ہے فوج کے خلاف عوام میں غصہ ہے اسے کم کرنے کیلئے وہ شائد کچھ رقم دے دیں۔

اب زرا آپکو یاد ماضی میں لے جاؤں کیونکہ مجھے آج کا ماحول بھی ویسا ہی لگتا ہے۔ ۱۹۷۱ کی جنگ میں ہمارے جرنیل ساتویں بحری بیڑے کے انتظار میں تھے جو نہ پہنچا اور ہم وہ جنگ بھی ہارے اور ملک بھی تقسیم ہوا۔ آج ہمیں ۱۰۰ ارب ڈالر کا انتظار ہے جو بس پہنچنے ہی والے ہیں۔ ہمارے جرنیلوں کا خیال ہے سعودی عرب، یو اے ای اور کویت والے بدھو ہیں۔ سعودی عرب کو خوراک کی ضرورت ہے مگر انہوں نے اس مسئلے کے حل کیلئے اپنے ملک میں بھی کام کیا ہے اور آج وہ دنیا کو دودھ بیچ رہے ہیں اور انہوں نے کچھ دوسرے ملکوں میں زرعی زمینیں بھی لی ہیں۔ شاید وہ فوج کو خوش کرنے کیلئے کچھ کریں مگر ۱۰۰ ارب کو بھول جائیں انہیں ہماری اوقات معلوم ہے۔

آخر میں ہر سیاسی پارٹی مجھ سے ناراض ہو چکی ہے اور ان کے ممبر گالیاں اور ذاتی حملوں سے اپنا غصہ اتارتے ہیں۔ آجکل جماعت اسلامی کی باری ہے۔ میں ہڑتال کو ملکی مسائل کا حل نہیں سمجھتا نہ دنیا میں کہیں ہڑتال کے ذریعہ قومی مسائل حل کرنے کی تحریک چلی ہے۔ ہڑتال ایک خاص طبقے کے کچھ خاص مسائل اور مطالبات منوانے کیلئے مفید رہتی ہے۔ جیسے لندن کے یا پیرس کے ریلوے ملازمین کی مراعت میں اضافے کیلئے ہڑتال۔ یا پاکستان میں ڈاکٹروں کی ہڑتال۔ قومی مسائل کے حل کیلئے ہڑتال اپنے ہی منہ پر طمانچہ ہے اور اس سے صرف اپنی جیب پر ڈاکہ پڑتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر روزی کمانے والے اس سے سب سے متاثر ہوتے ہیں اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کی ہڑتال پر بھی میری یہی رائے تھی جو ان کے غصے کا سبب بنی۔ جماعت اسلامی پینسٹھ سال سے احتجاجی سیاست کر رہی ہے نہ اپنے لئے کچھ کر پائی نہ قوم کیلئے۔ پی ٹی آئی ایل نے بھی احتجاج کا طریقہ ان جماعتیوں سے سیکھا جو جماعت اسلامی چھوڑ کر اس پارٹی میں آئے۔ ملک گیر پر امن سیاسی تحریک سے ہی سیاسی تبدیلی آئے گی۔ ہفتے میں ایک دن دو گھنٹوں کیلئے ہر شخص گھر سے باہر نکلے اور حکمرانوں کے خلاف پلے کارڈ لے کر چلے اور اس کی شہرت سوشل میڈیا پر پوری دنیا میں پہنچے۔ تب ان ظالم حکمرانوں کو فرق پڑے گا جب انہیں ڈالر خطرے میں نظر آئینگے

Daily Askar

Comments are closed.