دنیا میں امن کو فروغ دینا اور مل کر کام کرنا آنے والی نسلوں کی ذہنی صحت، تندرستی اور پرامن مستقبل کے لیے ضروری ہے، خاتون اول بیگم ثمینہ علوی کا فرسٹ لیڈیز اینڈ جینٹلمین کے تیسرے سربراہی اجلاس کیلئے ویڈیو پیغام

خاتون اول بیگم ثمینہ علوی نے تنازعات کے شکار علاقوں میں لوگوں کی ذہنی صحت اور بہبود کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے مستقل اقدامات، عالمی کردار اور تعاون پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میں جاری تنازعات کے حل کے لیے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، دنیا میں امن کو فروغ دینا اور مل کر کام کرنا آنے والی نسلوں کی ذہنی صحت، تندرستی اور پرامن مستقبل کے لیے ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یوکرین کے شہر کیف میں فرسٹ لیڈیز اینڈ جینٹلمین کے تیسرے سربراہی اجلاس کے لیے اپنے ویڈیو پیغام میں کیا۔ اس سال کے سمٹ کا آغاز یوکرین کی خاتون اول اولینا زیلنسکا نے کیا جس کا عنوان “ذہنی صحت: مستقبل کی نزاکت اور لچک” تھا۔ سربراہی اجلاس میں صدر ولادیمیر زیلینسکی نے بھی خطاب کیا۔ اس سمٹ میں جاپان، ترکی، البانیہ، جرمنی، آرمینیا، مقدونیہ، پولینڈ، اسپین اور سویڈن کی فرسٹ لیڈیز اینڈ جینٹلمین کے پیغامات بھی شامل تھے۔ سمٹ کے لیے اپنے پیغام میں بیگم ثمینہ علوی نے تنازعات والے علاقوں میں لوگوں کی ذہنی صحت اور بہبود کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے علاوہ یوکرین میں ان خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا جنہیں جنگ کی وجہ سے جسمانی، جذباتی اور ذہنی دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں ان کے درد کو محسوس کر سکتے ہیں اور یوکرین کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر سکتے ہیں، ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ انسانیت ہی ہے جو بحرانوں اور تنازعات میں مبتلا ہے۔ بیگم ثمینہ علوی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کے پاکستان کے اپنے تجربے اور دہشت گردی کے خلاف اس کی طویل جنگ نے پاکستان کو سکھایا کہ تنازعات اور جنگ لوگوں کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے بھارت کی طرف سے غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف مظالم نے کشمیریوں کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹرز ودآئوٹ بارڈرز اور کشمیر یونیورسٹی کی ایک تحقیق کا حوالہ دیا جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تقریباً 1.8 ملین کشمیری بالغ افراد، جو خطے کی بالغ آبادی کا تقریباً 45 فیصد ہیں، نے خود کو مختلف قسم کی ذہنی پریشانیوں سے دوچار پایا، جن میں بے چینی، ڈپریشن اور دیگر شامل ہیں۔ یہ پریشان کن اعداد و شمار مسلسل فوجی کارروائیوں، مسلح تصادموں، اقتصادی بندشوں اور ہندوستانی حکومت کی طرف سے کرفیو کے نفاذ کے گہرے اثرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دماغی صحت کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے اور خاص طور پر تنازعات والے علاقوں میں لوگوں پر اس کے منفی اثرات کے حوالے سے غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے نتائج کا حوالہ بھی دیا کہ انسانی بحران میں ذہنی صحت کے مسائل کا پھیلائو دوگنا سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی تنازعہ والے علاقے میں جنگ کا طویل دورانیہ ذہنی صحت کی معیاری سہولیات اور مشاورت کی ضرورت کو بڑھا دیتا ہے۔ خاتون اول نے اس بات پر زور دیا کہ تنازعات والے علاقوں میں لوگوں کو معمول کی زندگی میں واپس لانا ممکن ہے تاہم اس کے لیے دنیا میں مسلسل کوششوں اور تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا بھر کے تنازعات کا پرامن حل چاہتا ہے۔

Daily Askar

Comments are closed.