یہ بیلہ شہر سے منسلک سب سے بڑے گوٹھ بلوچی گوٹھ کا گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ہے جہاں آج سے چھ سال قبل آنے والے زلزلے نے لڑکیوں کے اس اسکول کو متاثر کیا، بچیوں و استانیوں نے احتجاج کے طور پر قریبی کھیت میں کلاسز کو جاری رکھا،
کچھ عرصہ اسکول بند رہا اس کے بعد حکومتی اداروں نے قریب ہی پولیس تھانے کی زیر تعمیر ادھوری بلڈنگ میں اسکول کو منتقل کیا جہاں پر کمروں کی کمی بجلی و پانی کا مسائل رہے بہت بار ٹھیکیدار کی طرف سے تھانے خالی کرانے کی کوشش کی گئی
گزشتہ سیلاب میں وہ تھانے نما اسکول بھی ڈوب گیا ،یونیسف کی طرف سے سیلاب بحالی اسکول کے منصوبے کے تحت تین کمرے زلزلہ متاتر اسکول عمارت میں بناے گئے اور ٹینٹ فراہم کیے گئے اسکول کے پرائمری حصے کو وہی منتقل کیا گیا
حالیہ گرمیوں کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محکمہ پولیس نے اپنے تھانے پر دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا اور تمام بچیوں کو دوبارہ اپنی پرانی خستہ حال بلڈنگ میں جانے پر مجبور کردیا
اب صورتحال یہ ہے پرائمری اسکول کی بچیاں بلوچ خان گوٹھ میں ایک بیٹھک میں جہاں واش روم، پینے کے پانی اور بجلی کے مسائل ھیں اور باقی مڈل کی بچیاں ٹینٹس میں اور ہائی کلاسز بھی بچیاں یونیسف کی طرف سے بناے گئی تین کلاسز میں پڑھ رہی ھیں
حکومت کی طرف سے ہر سال اس اسکول کی بحالی کے لیے اعلانات ہوتے ہیں پی ایس ڈی پی میں پروپوزل اپرول کا لفظ بھی لگتا ہے مگر زمین پر اس اسکول کی عمارت کے لیے کام نظر نہیں آتا ہے
کسی دور میں اس اسکول میں تین سو سے زائد بچیاں پڑھتی تھی اسکول کے غیر یقینی حالات کے باعث ڈراپ اوٹ کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو آیا ہے اور آخر والدین اپنی بچیاں پڑھائی کے لیے کہاں پڑھائیں؟ کیونکہ قریبی گرلز ہائی اسکول بیلہ کی عمارت کی کہانی بھی اس اسکول سے کم نہیں
ذرا سوچیے
Comments are closed.