اسلام آباد 15دسمبر : سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی (Power )کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر اعظم نذیر تارڑکی زیر صدار ت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت انرجی (Power Division)کی مجموعی کارکر دگی اور کام کے طریقہ کار کے علاوہ پاور ڈویژن کے ماتحت اداروں ، تمام ڈیسکوز، کے الیکٹرک، این ٹی ڈی سی، نیسپاک، پی پی آئی بی، سی پی پی اے۔ جی، پی آئی ٹی سی، پی پی ایم سی، این پی پی ایم سی ایل، پی ایچ ایل اور جنکوز کی کارکر دگی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر اعظم نذیر تارڑنے کہا کہ یہ انتہائی اہمیت کی حامل کمیٹی ہے۔ ملک کو توانائی کے حوالے درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے موثر حکمت عملی اور مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ توانائی کے سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے اور موجودہ توانائی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ملک میں سستی بجلی کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کیا گیا ہے اور ٹرانسمیشن لائن کے مسائل کے حل کے لئے بھی معاملات کو کافی عرصہ سے کمیٹی اجلاسوں میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ سستی بجلی کیلئے ہائیڈرل سولر اور ونڈ کے سسٹم پر منتقل ہونے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ان سب امور کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے تاکہ معاملات کی بہتری کیلئے موثر حکمت عملی اختیار کی جائے۔
قائمہ کمیٹی کو پاور ڈویژن کے کام کے طریقہ کار اور کارکر دگی بارے بھی تفصیلی آگاہ کیا گیا ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ رولز آف بزنس کے تحت کام کیا جا رہا ہے۔ پاور ڈویژن کی 7 ونگز ہیں اور منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 183 ہے۔ 485 ملین کا بجٹ ہے ، ڈویلپمنٹ کے کل 102 منصوبہ جات ہیں جن میں سے 66 جاری اور 36 نئے منصوبے ہیں۔ پاور ڈویژن کے ماتحت 12 تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ تقریباً45 ہزار میگاواٹ کی انسٹالڈ کپیسٹی ہے۔ جن میں سے ہائیڈرل کی 28 فیصد،کوئلے کی16 فیصد، گیس سے 11 فیصد،آر ایل این جی سے 17 فیصد، نیوکلیئر سے 19 فیصد، بھگاس سے 1 فیصد اور سولر سے 1 فیصد جنریشن پاور ہے۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ بجلی کی طلب کے مطابق توانائی پیدا کی جا رہی ہے اور 12400 میگاواٹ بجلی اوسطاً سردیوں کے موسم میں بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ موثر اپریشنل کپیسٹی تقریباً23 ہزار میگاواٹ ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مالی سال 2018 میں گردشی قرضوں میں دوگنا اضافہ ہوا جو450 ارب تک پہنچا،2019 میں 460 ارب اور 2020 میں 538 ارب کا اضافہ ہوا ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2023-24 میں گردشی قرضہ 2310 ارب تک برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے گی ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ فیوچر ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ نئی پالیسی کے تحت کپیسٹی چارجز نہیں ہونگے صرف انرجی پیدا کرنے کے چارجز ہونگے۔ دنیا کا سب سے بہتر سولر سسٹم صوبہ بلوچستان میں موجو دہے۔ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ اگر ہائیڈرل سولر اور ونڈ کے ذریعے بجلی پیدا کی جائے تو گردشی قرضوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ سینیٹر سیف اللہ سرور خان نیازی نے کہا کہ ملک میں سولر کے حوالے سے بہتر اور قابل عمل پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے بہتری آ سکتی ہے۔ سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ نئے معاہدے ڈالرز کی بجائے پاکستانی کرنسی میں ہونے چاہیں ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ انسٹالڈ کپیسٹی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ گرمیوں میں بجلی کی طلب 30 ہزار میگاواٹ اور سردیوں میں 12 سے 13 ہزار میگاواٹ ہوتی ہے۔ طلب کے لحاظ سے بعض ڈسکوز کو بند بھی کرنا پڑتا ہے جنہیں خاص تناسب سے ادائیگی کی جاتی ہے۔ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ اگر طلب 12400 میگاواٹ ہے اور ہمارے پاس بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجو دہے تو پھر ملک میں لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے۔ جس پر آگاہ کیا گیا کہ وہ فیڈر جہاں پر لاسسز زیاد ہ ہیں وہاں لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر اعظم نذیر تارڑنے کہا کہ جب تک انرجی باسکٹ ٹھیک نہیں ہو گا بہتر ی ممکن نہیں ہے۔ کوئی بھی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری نہیں کرے گا ۔ ہمیں اپنے سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے ہمسائیہ ممالک کے سسٹم کا جائزہ لینا چاہیے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ دسمبر2023 تک 52 ارب روپے کی ریکوری کی جا چکی ہے ۔ بجلی چوری میں 35 ہزار لوگ گرفتار اور 63 ہزار کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ 113 ارب روپے صوبائی حکومتوں سے لینے ہیں۔ موجود ہ حکومت سے اچھی سپورٹ مل رہی ہے۔ اب پیداوار اور بجلی سپلائی سے تقریباً 90 فیصد ریکوری ہو رہی ہے۔ قائمہ کمیٹی نے بجلی چوری کو کم کرنے کے حوالے سے نگران حکومت کی کوششوں کو سراہا ۔ قائمہ کمیٹی کو تمام ڈسکوز کی جانب سے پیدا ہونے والی بجلی اور ریکوریوں کے بارے بھی تفصیلی آگاہ کیا گیا ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ تقریباً تمام شعبے پاور سے جڑے ہیں۔ پاور سیکٹر کی بہتری کے لئے موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی اشدضرورت ہے۔ نگرانی وفاقی وزیر توانائی محمد علی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ماضی میں جو معاہدات کیے گئے وہ ڈالر میں کیے گئے تھے اور ان کے ساتھ ہی ہمیں آگے چلنا پڑے گا ۔ معاہدات کو سامنے رکھ کر بہتری کے لئے حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی اور بجلی کے موجودہ ریٹ کے مطابق ہماری انڈسٹریز دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹریز کو 20 سے 30 فیصد زائد آرڈرز ملے ہیں جو اچھی بات ہے۔ ہمیں پاور کاسٹ کو کم کرنا ہو گا ۔ کپسیٹی پیمنٹ کم کرنی ہو گی ۔ ٹرانسمشن لائنز پر بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سرکلر ڈیٹ کے سٹاک کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بجلی کے ریٹ کم ہونے پر اس کی طلب بڑھے گی ۔ ٹیرف سسٹم کو موثر بنانا ہو گا ۔ سبسڈی کو ختم کرنا ہو گا اور اس حوالے سے قانونی تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔ پرائیوٹ سیکٹر کے ماہرین کو اس سسٹم میں شامل کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیسکوز کی منیجمنٹ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر اعظم نذیر تارڑنے کہا کہ ایوان بالاء کی اس کمیٹی نے کمیٹی اجلاسوں میں دو ایشوز پر بہت زیادہ کام کیا ہے۔ پاور ڈویژن متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ان کاجائزہ لے یہ قائمہ کمیٹی آئندہ اجلاس میں ایجنڈے میں شامل کر کے بہتری کے لئے لائحہ عمل اختیار کرے گی ۔ سینیٹر ہدایت اللہ خان نے کہا کہ ان اداروں کے بورڈ کے ممبران کی تقرری میں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ متعلقہ ماہرین کو شامل کیا جائے۔ سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ یہ کمیٹی جس سیاسی جماعت کے پاس تھی اسی سیاسی جماعت ملنے چاہیے تھی ۔ انہوں نے کہا کہ کبھی پاکستان کی پالیسیوں کو دنیا بھر میں بڑا اچھا سمجھا جاتا تھا ۔ بہتر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر کے لئے مختصر، درمیانی اور طویل المدتی پروگرامز ہونے چاہیں۔ نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں کمیٹی کی ہدایت کے مطابق عمل کر کے تفصیلات فراہم کی جائیں گی ۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں تمام ڈسیکوز میں ٹاپ ریکوری کرنے والی ڈسیکوز اور کم ریکوری کرنے والی ڈسیکوز بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ لیسکو، پیسکو اور ہیسکو نے نمایاں ریکوری کی ہے جبکہ کیسکو میں 585 ارب کی ریکوری میں سے 522 ارب روپے زرعی شعبے میں ٹیوب ویل اور حکومت سے ریکوری کرنی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ صوبہ بلوچستان میں زمینداروں کی بہتری کے لئے ٹیوب ویل کنکشن کے لئے 75 ہزار بل فکس کیا گیا تھا جس میں 10 ہزار زمیندار اور 65 ہزار میں سے 40 فیصد وفاق اور 60 فیصد حکومت ادا کرے گی ۔ اب لوڈ فیکٹر تقریباً تبدیل ہو چکا ہے۔ بل اڑھائی لاکھ سے اوپر کے آتے ہیں ۔ سالانہ 90 ارب روپے کا صوبہ بلوچستان سے گردشی قرضے میں اضافہ ہوتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر اعظم نذیر تارڑنے کہا کہ ملک میں توانائی کے بحران کو ختم کرنے اور توانائی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کیلئے مل کر کام کرنا ناگزیر ہے۔ تمام معاملات کو شفاف انداز میں منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ ملک و قوم کی بہتری و خوشحالی کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز فدا محمد، دلاور خان، سیف اللہ سرور خان نیازی، ذیشان خانزادہ، ثناء جمالی، حاجی ہدایت اللہ اور بہرہ مند خان تنگی کے علاوہ نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت توانائی اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔
Comments are closed.