موجودہ بجٹ سے عوام کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟؟؟ ذوالفقار علی میرانی
موجودہ بجٹ سے عوام کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟؟؟ ذوالفقار علی میرانی
وفاق خواہ صوبہ سندہ کی جانب سے نو اور دس جون 2023ع کو سال برائے 2024ـ2023 پیش کی گئی، یہ بجیٹ حکمرانوں نے اس وقت پیش کی ہے جن دنوں میں ملک کے اندر نئے انتخابات کے چرچے اور شور شرابے تیزی سے گردش کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت عالمی مالیاتی ادارے کے آگے اتنی بے بس بن گئی ہے، جو عوام کو ریلیف اور فائدہ دینے کے بجائے آئی ایم ایف کے شرائط پر عمل کرتے ہوئے، عام لوگوں پر ٹیکسز کے انبار گرادیئے ہیں۔ روز مرہ کے استعمال کی اشیائے سمیت کھانے پین کی چیزیں اور سبزی بھی مہنگی کی گئی ہے۔ وفاق نے 5،14کھرب روپے کی بجٹ پیش کی ہے، جس میں ترقیاتی کاموں کیلئے پہلے نمبر پر، وزارت دفاع کیلئے دوسری نمبر پر اور سول انتظامیہ کیلئے تیسرے نمبر پر رکھی گئی ہے۔ جبکہ پاکستانی قوم کو آخری نمبر پر رکھ کر ثابت کیا گیا ہے ملک کی موجودہ پی ڈی ایم حکومت، عوام دوست حکومت نہیں بلکہ عوام دشمن بجٹ پیش کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوم کی نظریں بجٹ پر جمی ہوئی ہوتی ہیں، تاکہ حمران ان کو کوئی حاصل ہوں گےنہ کوئی ریلیف دیں، لیکن موجودہ پی ڈی ایم حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں سے عوعام کو پیسے کا بھی ریلیف نہیں ملا ہے۔
وفاق کی جانب سے پیش کی گئی بجٹ 14469 ارب روپے کی ہے، جن میں سے ترقیاتی کاموں کیلئے 1150 ارب روپے، ملکی دفاع کیلئے 1804 ارب روپے اور انتظامی اخراجات کیلئے 714 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس بجٹ میں آمدنی کے ذرائع کے ہدف 9200 ارب روپے اور خسارہ 7574 ارب روپے دکھایا گیا ہے۔ قرضے ادا کرنے کیلئے 7303 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح آنے والے سال کیلئے جی ڈی پی نمو کی شرح کا ہدف 5۔3 فی صد ہوگا، ایف بی آر ٹیکس روینیو کا ہدف 9200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جبکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بجٹ 260 ارب روپے س بڑھاکر 400 ارب روپے مقرر کیے گئے ہیں، جبکہ نئے مالیاتی سال میں سپر ٹیکس کی ٹیکس کیلئے تین نئے ٹیکسز متعارف کیے گئے ہیں۔ مزیدار بات یہ ہے کہ وفاقی بجٹ پیش ہونے سے پہلے وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار یہ کہتے کہتےے تھکتے ہی نہیں تھے کہ سال 2024ـ2023 کی بجٹ میں عوام کو ریلیف دینا ان کی اولین ترجیح ہے۔ ایسے ایسے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن سے عوام کو ریلیف ملے گا اور مہنگائی کا تھورا تھورا بوجھ کم ہوجائے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحا ڈار نے بجٹ تقریر کی شروعات سابقہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پر تنقید سے کی کہ ملک چند سالوں سے معاشی طور پر مشکلات سے دوچار ہے۔ خصوصی طور پر گذشتہ برس معاشی طرح سے تباہی کا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 10 اپریل 2022ع کو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاکر ہٹانے کے بعد پیدا ہوئی سیاسی صورتحال کے باعث ملک کی معاشی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا، ملک کی معیشیت کو پٹڑی پر لانے کیلئے آئی ایم ایف سے روابط میں ہیں، بیل آئوٹ پیکیج کا مطالبا کر رہے ہیں۔ لیکن پی ڈی ایم حکومت کی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں۔ سائیں ڈار صاحب! قرضوں س ملک تو بڑی بات یک چھوٹا گھر بھی نہیں چل سکتا ہے۔ قرض ایک مرض ہے، حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ قرضوں سے گریز کریں۔ اور اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی نہ ماریں۔ جو بجٹ آپ نے پیش کی ہے، اس میں بقایا بارہ روز بچ چکے ہیں۔ جبکہ آئی ایم ایف کی امداد نہیں ہوئی ہے۔ کوئی بلہ کریں، کیوں کہ آدھا فی صد ترقی پر سال گذر گیا ہے، اور ایک بھی معاشی ہدف ممکمل ہو نہیں سکا ہے۔
وفاقی بجٹ پر کاروباری طبقہ کی جانب سے ردعمل سامنے آیا ہے کہ تعریف کی تو کسی نے مخالفت میں الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس سلسلے میں لاہور چیمبطر آف کامرس کے صدر کاشف انورنے کہا کہ حکومت نے نان فائلرز کو فائلر بننے اور زرعی شعبے کو ترقی دلانے کیلئے کئی مراعات کا اعلان کیا ہے، حالیہ بجٹ میں سب سے زائد توجہ آئی ٹی سیکٹر پر دی ہے، فری لانسرز پر ٹیکس کی شرح کم کردی گئی ہے، ایس ایم اے سیکٹر کو بھی مراعات دی گئی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کچھ معاشی اعداد وشمار کو سامنے رکھتے ہوئے، کہا ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے آپریشن کو ایک سال پاکستانی قوم کو اتنا نقصان نہیں پنہچایا گیا ہے۔ جتنا کسی دشمن نے نہیں کیا ہے۔ اس سے زائد ستم ظریفی کیا ہے کہاس ملک کی عوام کے خلاف سنگین گناہ کا کوئی احتساب نہیں ہوا ہے۔ جبکہ بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک کے اندر جو معاشی صورتحا خراب ہوئی ہے، اس کی سیدھی ذمہ دار سابقہ تحریک انصاف حکومت ہے۔ سال 2024ـ2023کی بجٹ میں ایک اچھی بات دیکھنے میں آئی ہےمزدور اور محنت کش طبقہکی کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے ماہانہ کی گئی ہے۔ جس سے مزدور اور محنت کش کی دہاڑی ایک ہزار روپے ہوجائے گی۔ یاد رہے کہ صوبائی وزیر محنت و افرادی قوت سندہ سعید غنی نے جب مزدور اور محنت کش کی تنخواہ کم سے کم 25 ہزار روپے مقرر کی تھیتب سپریم کورٹ نے مل مالکان کے مطالبے پر وہ تنخواہ کم کرنے کا فیصلا دیا تھا۔ جس کے بعد حکومت سندہ نہ صرف اپنی موقف پر ڈٹی رہی بلکہ وفاقی حکومت سے بھی مطالبا کرتی رہی کہ مزدور اور محںت کش کی تنخواہ 25 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار روپے ماہانہ کی جائے۔
حخومت سندہ بالخصوص سعید غنی کے مطالبے رکھن کے بعد مزدور اور محنت کش کے مقدمے کو قوت ملی اور وفاقی حکومت نے بھی کچھ نہ کچھ کرکے تنخواہ میں اضافہ کرکے مزدور اور محنت کش کی حقیقی اجرت والے اعداد کی طرف راہ ہموار کی۔ دوسرا عوام کے زیر استعمال ہونے والے کپڑے سستے کیے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آئی ٹی کے شعبے یعنی الیکٹرانکس کی اشیائے کی خرید و فروخت کو بھی آسان بنایا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے کپڑ تو سستے کر دیئے ہیں، اور ملازموں کی تنخکواہ میں مہنگائی الائونس بڑھادیا ہے، لیکن کیا مہنگائی میں کمی آئے گی یا نہیں؟ کیا پیٹرولیم مصنوعات سستی ہوگں گی یا نہیں؟؟ کیا رواں مہنگائی والے دور میں اس تنخواہ سے ملازمین کا گذارہ ہو سکے گا؟؟؟ سب س اہم بات یہ ہے کہ گذشتہ برس برسات اور سیلاب کے باعث 70 فی صڈ نقصان برداشت کرنے والی سندہ کی عوام کیلئے کسی اقسام کا کوئی ریلیف یا پیکیج نہیں دیا گیا ہے۔ وفاقیحکومت نے خیبر پختون خوا صوبہ میں ضم کیے گئے اضلاع کیلئے ترقیاتی کاموں کیلئے تو2 بجٹ رکھی ہے لیکن سندہ صوبہ میں تناہ و برباد شدہ گھروں، شہروں اور گائوں اور عوام کی مستقبل کی بحالی کیلئے کچھ بھی نہیں رکھا ہے۔ پی دی ایم کی اتحادی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی بجٹ میں سے اایسا لگ رہا ہے کہ وفاقی حکومت 90 فی صدہدف حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
موجودہ بجٹ میں مہنگائی پر ضابطہ نہیں کیا گیا ہے، عوام کو مہنگائی کی دلدل سے نکالنے کیلئے کسی اقسام کے مضبوط اور پادار اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ نئے ٹیکسز نافذ کرنے سے بھی گریز نہیں کی گئی ہے، بچوں کے دودھ سے لیکر عام استعمال کی اشیائے پر ٹیکس لاگو کی گئی ہے۔، اس لیے حکمرانوں کو چاہیے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کو ترجیحات دیں، اور برابری کی بنیاد پر ترقیاتی پیکیج دیں تاکہ عام لوگ میں سے یہ احساس محرومی ختم ہوجائے۔.
Comments are closed.