پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کا جدید مشینری کے ذریعے چاول کی کاشت کو بڑھانے اور روایتی کٹائی کی خامیوں کو دور کرنے پرڈسکہ، سیالکوٹ میں سیمینار کا انعقاد
* چاول کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے جدید فارم مشینری اور سفارش کردہ اقسام کو اپنانا ناگزیر ہے۔ چیئرمین پی اے آر سی، ڈاکٹر غلام محمد علی
* پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کا جدید مشینری کے ذریعے چاول کی کاشت کو بڑھانے اور روایتی کٹائی کی خامیوں کو دور کرنے پرڈسکہ، سیالکوٹ میں سیمینار کا انعقاد
اسلام آباد: (پی اے آر سی، شعبہ تعلقات عامہ) پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے زرعی انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ نے ڈسکہ، سیالکوٹ میں ایک سیمینار/تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا جس کا مقصد چاول کی کاشت اور کٹائی کے لیے خصوصی مشینری کے استعمال کے فوائد کے بارے میں تعلیم اور تربیت کے ذریعے چاول کی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا۔ روایتی طریقوں کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے نمایاں شرکاءمیں ڈاکٹر آصف علی میرانی، ڈی جی، اے ای ڈی، پی اے آر سی، ڈاکٹر حافظ سلطان محمود، ڈائریکٹر، ایگریکلچرل انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ، این اے آر سی، ماہرین، محققین، انجینئرز، پروگرام لیڈرز، اور زرعی تنظیموں کے نمائندوں کے علاوہ کسانوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد علی نے گندم کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی نقد آور فصل کے طور پر چاول کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے زرعی شعبے پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے جدید کاشتکاری کے آلات اور زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ چاول کی کاشت بنیادی طور پر سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے زرخیز علاقوں میں ہوتی ہے جو کسانوں کی ایک قابل ذکر تعداد کو معاش کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ تاہم گندم کے مقابلے میںپاکستان میں چاول کا مشینی انحصار نسبتاً کم ہے جس کی وجہ سے بوائی میں تاخیر ہوتی ہے اور دستی مشقت کی وجہ سے پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ مزید برآں، بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور صنعت کاری کی وجہ سے مزدوروں کی کمی کسانوں کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ ڈاکٹر علی نے مشورہ دیا کہ میکانائزیشن کو اپنانے اور ہیڈ فیڈنگ کمبائن ہارویسٹر کا استعمال ان مسائل سے نمٹنے کے لیے قابل عمل حل فراہم کر سکتا ہے۔
مالی سال 22-2021 کے دوران، چاول کی کاشت 3,537 ہزار ہیکٹر کے رقبے پر محیط تھی، جس سے کل 9.323 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی۔ دستی پیوند کاری کے طریقہ کار کے نتیجے میں پودے لگانے کی تجویز کردہ تعداد فی ایکڑ 000 80، سے 85,000 پودوں کے مقابلے میں اوسطاً 40,000 سے 45,000 پودے فی ایکڑ ہیں بہت کم ہے۔ مزید برآں پاکستان میں چاول کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 30 سے 35 من ہے جبکہ بین الاقوامی اوسط پیداوار 50 من فی ایکڑ ہے۔ ری کنڈیشنڈ کمبائن ہارویسٹرز کے استعمال اور دستی کٹائی کے طریقوں سے نمایاں نقصان ہوتا ہے جو کہ اناج کے بکھرنے کی وجہ سے 5 سے 13 فیصد تک اور تھریشنگ کی وجہ سے 2 سے 7 فیصد تک ہے۔ اس کے برعکس رائس ٹرانسپلانٹر کے استعمال نے فی ایکڑ 80,000 سے 125,000 پودوں کے موثر قیام کو قابل بنایا اس طرح فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ خاص طور پر ہیڈ فیڈنگ کمبائن ہارویسٹر نے کم سے کم نقصانات کا مظاہرہ کیا، جس میں کرشنگ کی شرح 1.7 سے 3.5 فیصد اور تھریشنگ کے نقصانات 0.5 سے 1.5 فیصد تھے۔
آخر میں سیمینار کے شرکاءنے میکانائزڈ پروڈکشن ٹیکنالوجی کے بارے میں اپنی بصیرت اور تجربات کا اشتراک کیا، فصلوں کی پیداوار کو بڑھانے کی صلاحیت پر زور دیا اور زرعی برادری میں وسیع پیمانے پر اسے اپنانے کی حوصلہ افزائی کی۔
عتیق الاحسن قریشی
انچارج شعبہ تعلقات عامہ پی اے آرسی
0332-5373706
Comments are closed.