بجٹ میں واضح بے ضابطگیوں اور اناملیز پر حکومت کی فوری توجہ کی ضرورت ہے:عرفان اقبال شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی
وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان
- بجٹ میں واضح بے ضابطگیوں اور اناملیز پر حکومت کی فوری توجہ کی ضرورت ہے:عرفان اقبال شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی
کراچی : صدرایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ وفاقی بجٹ 2023-24 کے گہرائی سے تجزیہ کرنے کے بعد ایف پی سی سی آئی نے بجٹ میں بہت سی بے ضابطگیوں کو نوٹ کیا ہے؛ جو پارلیمنٹ کی طرف سے فنانس بل کے حتمی ورژن کی منظوری سے پہلے درست نہ ہونے کی صورت میں نقصان دہ ثابت ہو نگی۔ عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ سب سے اہم بے ضابطگیوں کا تعلق کسٹمز کے ساتھ ہے؛ مثال کے طور پر، سیکشن 14-A پر نظرثانی کی جانی چاہیے کیونکہ اس وقت تاجر برادری کو درآمدی سامان پر تاخیری حراستی سرٹیفکیٹ سے متعلق بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ تاجر برادری کا مطالبہ ہے کہ شپنگ لائنز اور شپنگ ایجنٹس کسٹمز ڈیلی ڈیٹنشن سرٹیفکیٹ کو اہمیت نہ دیں؛ جو کہ متعلقہ ضوابط میں قانونی کوتاہی کی بنیادی وجہ ہے۔کسٹم کے ساتھ ایک اور اہم مسئلہ 5ویں شیڈول میں Butyl Acetate اور Di-Butyl Orthophthalates پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی کے حوالے سے ہے جس کی وجہ سے ملکی صنعت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ تاجر برادری کا موقف ہے کہ اس سلسلے میں مقامی صنعت کے مفادات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔صدرایف پی سی سی آئی نے مزید کہا کہ کاغذاور کاغذی بورڈ پر تاجر برادری کے تحفظات ہیں۔ یہ دفعات HS.4802 میں نافذ کردہ ریگولیٹری ڈیوٹی کے حوالے سے ہیں۔ تاجر برادری کا موقف ہے کہ اس ریکولیٹری ڈیوٹی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ اسی طرح 4810 HS میں خام مال پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے سلسلے میں تحفظات ہیں؛ جس پر نظر ثانی کی درخواست ہے۔موجودہ بجٹ میں حکومت نے کچھ اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی کی ایڈجسٹمنٹ کی ہے جو پاکستان کسٹمز ٹیرف کے باب 47 اور باب 48 سے متعلق ہیں۔ ان اشیاء پر ٹیکس کی شرح پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ انکم ٹیکس میں بجٹ کی بے ضابطگیوں کو اجاگر کررہے ہیں اور فلیٹ آپریٹرز اور ویئر ہاؤسنگ لاجسٹک ایسوسی ایشن نے انکم ٹیکس میں ظاہر ہونے والی بے ضابطگی میں کچھ مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 153 میں ٹیکس کی شرح پر نظر ثانی کی گئی ہے اور انڈسٹری کے حق میں اس شرح پر دوبارہ نظر ثانی کی جائے۔جہاں تک انکم ٹیکس کا تعلق ہے، حکومت سے درخواست ہے کہ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنا انتہائی نامناسب ہے؛ اس لیے نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے؛ تاکہ ٹیکس کا بوجھ یکساں طور پر تقسیم کیا جائے۔ عرفان اقبال شیخ نے اس بات پر زور دیا کہ سپر ٹیکس کے موجودہ سلیب کو بھی نیچے کی طرف نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کہ تاجر برادری پر ایک ناجائز بوجھ ہے۔ WHT کی موجودہ شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جس میں کمپنیاں، سروس سیکٹر اور تجارتی درآمد کنندگان شامل ہیں اور بونس حصص رکھنے والے افرادبھی شامل ہیں۔ WHT میں اضافے کی وجہ سے، صنعتی اور تاجر برادری پر مزید بوجھ پڑا ہے۔عرفان اقبال شیخ نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ انکم ٹیکس کے سیکشن 99-D کو واپس لیا جائے تاکہ تاجر برادری کو اپنے کاروبار سے جائز طریقے سے منافع کمانے کی حوصلہ شکنی کو روکا جا سکے۔مجوزہ ٹیکس اصلاحات میں خواتین چیمبرز کی جانب سے بھی کچھ تجاویز بھیجی گئی ہیں۔ جن کا تعلق متعلقہ شعبوں میں تربیت، مہارت کی ترقی اور ٹیکس ایڈجسٹمنٹ سے ہے۔ صدر ایف پی سی سی آئی نے یہ بھی کہا کہ ان کی تجاویز میں سابقہ فاٹا/پاٹا کے علاقوں میں بے ضابطگیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے؛ جب سے اس کا نفاذ ہوا ہے، تاجر برادری کی جانب سے غیر منصفانہ مراعات اور ان کے غلط استعمال کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ تاجر برادری کا موقف ہے کہ ان مراعات کے غلط استعمال سے سمگلنگ پھل پھول رہی ہے۔ جس کا اثر ملک کے دیگر علاقوں کی صنعت و تجارت پر پڑ رہا ہے۔انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 148 کے مطابق حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ درآمدی سامان پر درآمدی مرحلے پر ایڈوانس ٹیکس لگائے۔ اس دفعہ کے مطابق یہ ٹیکس مختلف زمروں پر لاگو ہوتا ہے۔ لیکن تجارتی حلقوں کی طرف سے یہ دلیل دی گئی ہے کہ اس دفعہ کے تحت کمرشل امپورٹرز اور مینوفیکچررز کے درمیان ٹیکس میں واضح فرق ہے۔ توقع ہے کہ حکومت اس خلا کو ختم کر دے گی؛ تاکہ مقابلہ کا رجحان ہر سطح پر برابر رہے۔SMEs کسی بھی ملک کی معیشت کو اس ملک کے SMEs کے شعبے کی ترقی سے ماپا جاتا ہے۔ ماضی کی روائت کے تسلسل میں ہم نے دیکھا ہے کہ اس شعبے کو ایک بار پھر مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اب اس شعبے کو صحیح مراعات کے ساتھ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اس لیے تجویز ہے کہ حکومت کو یہ مراعات، ٹیکس چھوٹ، توانائی اور کم از کم ٹیکس کی صورت میں فراہم کرنی چاہیے۔ سیلز ٹیکس کے حوالے سے بھی کئی بے ضابطگیاں موصول ہوئی ہیں، ان میں اہم یہ ہے کہ ریٹیل پیکنگ کی تفصیل انتہائی اہم ہے۔ چونکہ اس حوالے سے بجٹ میں کوئی واضح تشریح نہیں ہے؛ اس لیے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے تیسرے شیڈول کے نفاذ میں تحفظات پائے جاتے ہیں؛ خاص کر چائے جو کہ درآمدی بل میں ایک اہم مد ہے، ہمیشہ سے بحث کا موضوع رہی ہے؛کہ آیا 5 کلوگرام ریٹیل پیکنگ کو بلک پیکنگ کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔ حکومت کو اس بے ضابطگی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے؛ کیونکہ اس کے نتیجے میں در حقیقت حکومت کی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے پنکھوں اور کاٹن جننگ ملز سیکٹر پر ناجائز اور غیر معمولی سیلز ٹیکس کے مسئلے کی بھی نشاندہی کی؛ چونکہ یہ شعبے محنت کش ہیں اور ملازمتوں اور محصولات کو پیدا کرنے میں اہمیت کے حامل ہیں۔
بریگیڈیئر افتخار اوپل، ایس آئی (ایم)، ریٹائرڈ
سیکرٹری جنرل
Comments are closed.