احتساب بلا تفریق ہونا چاہیے کسی کو استثنی حاصل نہیں،حکومت اور پارلیمان عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے،مشیر برائے احتساب عر فان قادر

 

احتساب بلا تفریق ہونا چاہیے کسی کو استثنی حاصل نہیں،حکومت اور پارلیمان عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے،مشیر برائے احتساب عر فان قادر

لاہور۔17جون (اے پی پی):وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب عر فان قادر نے کہا ہے کہ احتساب بلا تفریق ہونا چاہیے کسی کو استثنی حاصل نہیں،حکومت اور پارلیمان عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے، احتساب سے متعلق آ ئین میں کوئی ابہام نہیں۔ ان خیالات کا اظہا انہوں نے ہفتہ کو یہاں گورنر ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہو ئے کیا۔عر فان قادر نے کہاکہ آ ئین اور قانون میں احتساب سے متعلق کسی کو استثنی حاصل نہیں ہے ،احتساب سب کا ہو گا، جب تک تمام اداروں کو یکسانیت کے ساتھ احتساب کے دائرے میں نہیں لائیں گے اس وقت تک قانون کی حکمرانی اور آ ئین کی بالا دستی قائم نہیں ہو گی، اگر کوئی ادارہ ساتھ نہیں دیتا تو قوم کو بتائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہو گی کہ موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے تک ملک میں قانون کی حکمرانی کا نظام مستحکم رہے ،پچھلے کچھ عرصہ سے ہم نے دیکھا ہے کہ قانون اور آئین کی بالادستی کیلئے اعلی عدلیہ بہت فعال ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ ججز ملک کے سیاسی معاملات میں نہ الجھیں بلکہ لوگوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھائیں۔عر فان قادر نے کہاکہ عدلیہ میں خود ا حتسابی کا نظام چل رہا ہے بد عنوانی سے کوئی مبرا نہیں، اسلام آ باد ہائی کورٹ کے ایک جج کی مبینہ کرپشن کا معاملہ سامنے آ یا ہے اس سلسلے میں مبینہ آ ڈیو لیکس بھی آ چکی ہے، مذکورہ جج کے سفری اخراجات اور اثاثوں میں بھی اضافہ بہت زیادہ ہے جس پر خاموشی سی نظر آ رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں بنچز کسی ایک فرد کی مرضی کے مطابق نہیں بننے چاہییں بلکہ مشاورت اور میرٹ پر بننے چاہییں، ماضی میں متعدد چیف جسٹس صاحبان نے اپنی مرضی کے بینچز بنائے ۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی جج فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو دے یا مس کنڈکٹ کا مرتکب ہو تو اس کو عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے،عدلیہ نے اپنے احتساب کا عمل اپنے ہاتھوں میں رکھا ہوا ہے،اگر کسی جج نے میرٹ سے ہٹ کر کوئی کام نہ کیا ہو اور اس کی بے گناہی بھی ثابت ہو جائے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو اس جج کے بارے میں کارروائی ختم کر دینی چاہیے۔عرفان قادر نے کہا کہ سیاستدانوں کا احتساب مختلف ادارے کرتے ہیں،نیب بھی سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کا احتساب کرتاہے،سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو بھی خود احتسابی کر لینی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص بد عنوانی کرے گا تو اس کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ عرفان قادر نے کہا کہ حکومت نے ایک کمیشن قائم کیا ہے جس میں سینئر ترین جج کو شامل کیا گیا ہے لیکن عدلیہ نے کمیشن کو غیر فعال کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریویو کے قانون پر بھی انہیں بہت سے تحفظات ہیں، جن کے خلاف فیصلے ہوتے ہیں تو انہیں اپیل کا حق نہیں ملتا، اپیل کا حق سنگین جرائم میں ملوث افراد کوتو مل جاتا ہے لیکن سابق وزراء اعظم کوگھر تو بھیج دیا گیا لیکن اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل ہوتی ہے کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ آ ئین سے متصادم ہے،قانون کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں، عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ محمد نواز شریف کے خلاف کیس میں تا حیات نا اہلی نہیں ہو سکتی، اس پر قانون آ چکا ہے صرف پانچ سال کی نا اہلی ہو سکتی ہے، پانا مہ کیس والا معاملہ جب ری اوپن ہو گا تو اس پر معلوم ہو گا کہ کیا معاملات غلط ہوئے ہیں، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نواز شریف کو نا اہل کیا گیا ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں، نئی آ نے والی پارلیمان ہی قانون سازی کرے گی ۔ ایک اور سوال کے جواب میں عرفان قادر نے کہا کہ نئے قوانین عدالتی اداروں کو مضبوط کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں، ملٹری کورٹس کو چیلنج کرنے کے سوال پر عرفان قادر نے کہا کہ اگر کوئی ملٹری کورٹس کو چیلنج کرنا چاہتا ہے تواسے کوئی نہیں روک نہیں سکتا، البتہ فوجی تنصیبات پر حملہ یا توڑ پھوڑ کر نے والا خواہ فوجی ہو یا سول ان کے کیسز ملٹری کورٹس میں ہی چلائے جائیں گے ۔

 

Daily Askar

Comments are closed.