ساتھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان اور عورت فانڈیشن کے زیر اہتمام بلوچستان بوائز اسکاوٹس ہیڈ کوارٹر میں جمہوریت اور بااختیار عورت، حکومت اور سول سوسائٹی کے کردار، چیلنجز، آگے بڑھنے کا راستہ اور سفارشات پر قانون سازوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ انٹرفیس ڈائیلاگ کے عنوان سے ایک روزہ نشست کا انعقاد
کوئٹہ 21نومبر:۔ساتھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان اور عورت فانڈیشن کے زیر اہتمام بلوچستان بوائز اسکاوٹس ہیڈ کوارٹر میں جمہوریت اور بااختیار عورت، حکومت اور سول سوسائٹی کے کردار، چیلنجز، آگے بڑھنے کا راستہ اور سفارشات پر قانون سازوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ انٹرفیس ڈائیلاگ کے عنوان سے ایک روزہ نشست کا انعقاد کیا گیا۔ نشست کے مہمان خصوصی نگران صوبائی وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی تھے۔ نشست میں نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی ممبر پروفیسر فرخندہ اورنگزیب، کمیشن آن وومن سٹیٹس بلوچستان کی چیئرپرسن فوزیہ شاہین، الیکشن کمیشن کے پبلک ریلیشن آفیسر غوث بخش، ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر رقیہ تاج، ڈویژنل ڈائریکٹر ایس ڈبلیو ڈی محمد عبدوہو، عورت فاؤنڈیشن کے ریجنل ڈائریکٹر علاؤالدین خلجی، پروجیکٹ آفیسر جذبہ پروگرام سیپ پی کے یاسمین مغل،محکمہ انسانی حقوق کے صوبائی ڈائریکٹر اسفندیار، و دیگر نے شرکت کی۔اس موقع جان اچکزئی نے کہا کہ گزشتہ 35 سالوں سے پاکستان کے چاروں صوبوں کے نظرانداز طبقات بلخصوص عورتوں کو سیاسی اور ترقیاتی عمل میں شامل کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ اور خواتین کی فیصلہ ساز اداروں تک رسائی کے لئے کوشش اس سفر کا حصہ ہیں۔ خواتین کو سیاسی عمل میں اکھٹا کرکے مختلف امور زیر غور لائے جاتے ہیں، جس کا نتیجہ سیاسی عمل میں خواتین کی باقاعدگی کے ساتھ شمولیت کے طور پر حاصل ہوا، جذبہ پروگرام میں توسیع کی ضرورت ہے پرو وومن لاز پر مزید کام اور اس حوالے سے ایڈووکیسی کی ضرورت ہے۔۔ دیگر مقررین نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور لوکل گورنمنٹ کوئٹہ میں انتخابات کیلئے تیاری کررہی ہے عام انتخابات بھی آرہے ہیں تاہم الیکشن شیڈول کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ الیکٹرول پر کام جاری ہے اور انتخابات کیلئے شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے کیا جائے گا کیونکہ الیکشن کمیشن تمام محکموں سے باقاعدہ رپورٹ لیکر الیکشن کا اعلان کریگا ووٹ کے اندراج کیلئے وقت دیا گیا ہے۔ لوکل گورنمنٹ میونسپل کارپوریشن و کمیٹیوں کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ سازی میں خواتین کا کردار نہ ہو تو امپاورمنٹ کا عمل انتہائی مشکل ہوگا پارلیمان کیلئے انتخابی عمل میں خواتین کا حصہ 33 فیصد کیا جائے تاکہ سیاسی عمل کے ساتھ فیصلہ سازی میں بھی خواتین کا فعال کردار ہو۔ اس موقع پر12نکاتی مطالبات پیش کئے گئے جس کے مطابق 1۔پاکستان میں فوری طور پر پر امن، شفاف اور منصفانہ بنیاد پر عام انتخابات کے انعقاد کویقینی بنایا جائے۔2۔ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں فوری طور پر مقامی حکومتوں کے انتخابات کروائے جائیں۔ تا ہم جن اضلاع میں مقامی حکومتوں کے انتخابات اور حلف برداری کا عمل مکمل ہو چکا ہے وہاں پر منتخب نمائندگان کو ترقیاتی بجٹ کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے اور انہیں قانون میں موجود تمام اختیارات دئیے جائیں۔3۔الیکشن کمیشن ان حلقوں میں انتخابات کو معطل کرے جہاں پر خواتین ووٹرز کا ٹرن آٹ 30 فیصد سے کم ہو۔ 4۔ تمام وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کے تناسب کو %17 سے بڑھا کر کم از کم %33 تک کیا جائے۔ مزید برآں اس کوٹہ کے اندر، اقلیتوں، افراد باہم معذوری اور خواجہ سراں کے لئے نشستیں بھی مقرر کی جائیں۔5۔الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کے مطابق قومی اور صوبائی انتخابات میں عام نشستوں پر خواتین کو دی جانے والی ٹکٹوں کی حد کو 5 فیصد سے بڑھا کر زیادہ سے زیادہ 15فیصد کیا جائے۔اس حوالے سے درج ذیل نکات کو مد نظر رکھا جائے۔(الف)ہر سیاسی جماعت متعلقہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے 75 سے 100 فیصد جیتنے کے قابل حلقوں کیلئے کم از کم 15 فیصدٹکٹ خواتین کو دے گی۔(ب)جیتنے کے قابل حلقوں میں، ہر سیاسی جماعت متعلقہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی کل تعداد کا 35 سے 74 فیصد میں سے کم از کم 10 فیصد ٹکٹ خواتین کو دے گی۔(ج)جو پارٹی متعلقہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی کل تعداد میں سے 15 تا 34 فیصد ٹکٹ دے گی وہ جیتنے کے قابل حلقوں میں جنرل نشستوں پر خواتین کوکم از کم 5 فیصد ٹکٹ دے گی۔ یہ فارمولا متعلقہ اسمبلی کی تمام جماعتوں پر الگ الگ ان ٹکٹوں کی بنیاد پر لاگو ہوگا جو وہ اسمبلی میں دیتے ہیں۔(ر)سیاسی جماعتیں جنرل یا مخصوص نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے اپنی خواتین اراکین کے مالی اخراجات کا کم از کم %50 برداشت کریں گی۔ اور انتخابی مہم کی منصوبہ بندی، خواتین پولنگ عملے کی تربیت، ووٹرز کے لیے تدریسی تعلیمی مواد کی فراہمی، مقامی سطح پر پارٹی حمایت کو یقینی بنانے وغیرہ کے حوالے سے معاونت بھی فراہم کریں گی۔(ژ)انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین امیدواروں کے لیے سکیورٹی ڈپازٹ میں کمی کی جائے گی تا کہ زیادہ خواتین کو الیکشن میں حصہ لینے کی ترغیب دی جا سکے۔6۔کسی بھی سیاسی جماعت کو اس وقت تک 30 فیصد یا اس زائد نشستوں پر انتخابات لڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جب تک اس جماعت میں کم از کم %30 خواتین کی رکنیت نہیں ہوگی اور جب تک اسکی فیصلہ سازی میں کم از کم 10 خواتین شامل نہیں ہونگی۔7۔ انتخابی فہرستوں کا با قاعدگی کے ساتھ سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے۔ خواتین ووٹر کے اندراج کے لیے خواتین عملہ تعینات کیا جائے۔ ہرٹیم میں کم از کم ایک خاتون شمار کنندہ لازمی شامل ہو۔ ملک بھر میں الیکشن کمیشن کے تمام دفاتر بشمول ضلعی دفاتر میں خواتین عملے کو شامل کیا جائے۔8۔آگاہی مہم اور دیگر موثر اقدامات (ذرائع ابلاغ، متعلقہ ایجنسیوں، مقامی حکومت کے ڈھانچے، سیاسی جماعتوں، این جی اوز اسی بی اوز وغیرہ کے ذریعے)شروع کی جائیں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام اہل خواتین کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے اور انتخابی فہرستوں میں انکا اندراج ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے، قبائلی اور دیہی خواتین کے ساتھ ساتھ معذورخواتین پر زیادہ توجہ دی جائے۔9۔الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں، مقامی حکومتوں کے حکام، این جی اوز اسی بی اوز، اور میڈیا کے ذریعے ایسے اقدامات کرے جن کی بدولت زیادہ سے زیادہ خواتین اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں اور انھیں ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار کے بارے میں بھی جانکاری ہو۔ انہیں شعوری سیاسی انتخاب کرنے کے قابل بنانے کے لیے بھی خصوصی کوششیں بھی کی جائیں۔10۔خاص طور پر قبائلی یا قدامت پسند دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے علیحدہ پولنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں، تربیت یافتہ خواتین عملہ کو پولنگ سٹیشنوں پر تعینات کیا جائے اور خصوصی حفاظتی انتظامات کے ساتھ ساتھ اسٹیشنوں پر انتظار گاہ اور بیت الخلا جیسی سہولیات کو یقینی بنایا جائے۔11۔ خواتین کے حقوق کے گروپوں کے ساتھ مل کر خواتین کے حق رائے دہی، خواتین کے ووٹ کی اہمیت اور ان کی اپنی پسند کے مطابق ووٹ ڈالنے کے حوالے سے ذرائع ابلاغ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مہم چلائی جائے 12 الیکشن کمیشن حاملہ خواتین، مخصوص صلاحیتوں کے حامل افراد اور بزرگ شہریوں کی پولنگ اسٹیشنوں تک آسان رسائی کے لئے ہر ممکن اقداماتکرے۔13۔سیاسی جماعتیں پاکستان پولٹیکل پارٹیز ایکٹ 1952ء میں ترامیم کر کے خواتین، نوجوانوں، خواجہ سراء اور غیر مسلم پاکستانیوں کی مخصوص/عام نشستیں شامل کریں۔14۔خواتین، خواجہ سرا، مخصوص صلاحیتوں کے حامل افراد اور غیر مسلم امیدواروں کے لیے نامزدگی کی فیس 50% تک کم کی جائے۔15۔الیکشن کمیشن آف پاکستان ہر اُمیدوار کوطے شدہ اخراجات کے مطابق انتخابی مہم چلانے کا پابند کرے، اگر کوئی اُمیدوار طے شدہ اخراجات سے تجاوز کرے تو اُسے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے نااہل قرار دیا جائے۔
Comments are closed.