کراچی، 22/نومبر2023ء ۔ سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے گرین ہاءوسنگ افورڈیبل ریسیلینٹ (GHAR) چیلنجز اور مواقع کے موضوع پر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا جس میں فیکلٹی ممبرز اور طلباء کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ مہمان مقررین میں آرکیٹکچر بابر ممتاز اور ڈاکٹر انجینئر شعیب احمد شامل تھے ۔ کلیہ سول انجینئرنگ اینڈ آرکیٹکچر کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر میر شبر علی اور شعبہ آرکیٹکچر کے چیئرپرسن فضل نور ورکشاپ چیئر تھے ، جبکہ شعبہ سول انجینئرنگ کے چیئر پرسن ڈاکٹر عمران ورکشاپ سیکریٹری تھے۔
ایک معلوماتی اور جامع پریزنٹیشن دیتے ہوئے امریکہ کی یونیورسٹی آف ایلی نوائس Illinoisکے ممتاز المنائی ، عالمی شہرت یافتہ سول و ماحولیاتی انجینئر ڈاکٹر شعیب احمد نے کہا کہ گرین ٹیکنالوجی کو ماحول دوست تصور کیا جاتا ہے جو موجودہ روایتی تعمیراتی پریکٹس کی وجہ سے عمارتوں کے ماحول پر پڑنے والے منفی اور خراب اثرات کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے ۔ ترقی پذیر ممالک کے لیے گرین ٹیکنالوجی ملک کی معیشت اور صنعتی ترقی کا ایک لازمی جُز ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ تعمیراتی صنعت کو خاص طورپر ترقی پذیر ممالک میں اقتصادی ترقی کا محرک سمجھا جاتا ہے ۔ تعمیراتی صنعت کا ہاءوسنگ سیکٹر 40 سے زائد صنعتوں سے منسلک ہے ، اورتعمیراتی صنعت پر پڑنے والے اثرات سے اس سے منسلک تمام صنعتیں متاثر ہوتی ہیں ۔ پاکستان موسمیاتی خطرات کا سامنا کرنے والے دنیا کے ٹاپ دس ممالک میں شامل ہے ۔ گرین ٹیکنالوجی کے استعمال سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے نتیجے میں ہر3 سال بعد20ے30 بلین ڈالر کے ہونے والے اقتصادی نقصان سے بچا جاسکتا ہے ۔
نامور آرکیٹیکٹ ، شہری منصوبہ سازو ڈیولپمنٹ اکانومسٹ اور بارٹلیٹسBartlett’s یونیورسٹی کالج لندن کے ڈائریکٹر بابر ممتاز نے کہا کہ ہاءوسنگ ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ بنیادی حق ہے ۔ رہائش کی فراہمی، دستیابی اوراس کا قابلِ استطاعت ہونا پاکستان کے اہم مسائل میں سے ایک ہے ۔ پاکستان کی70 فیصد رہائشیں غیرمعیاری اور کچی آبادیوں میں ہیں ۔ گرین ہاءوسنگ افورڈیبل ریسیلینٹ(GHAR) کی ترقی سے پاکستان کی ہاءوسنگ ضروریات کوبہتر طریقے سے پورا کیا جاسکتا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ اگر فطرت کے خلاف طاقت استعمال کی جائے تو ہم کبھی نہیں جیت سکتے ۔ ہ میں فطرت کی طاقت اور اہمیت کا ادراک کرنا ہوگا ۔ مضبوط گھر خودساختہ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے تعمیر کئے جاتے ہیں ۔ پاکستان میں دو بنیادی چیزوں پر دھیان دیے کی ضرورت ہے ۔ ایک سیلاب (افقی پانی) اور دوسرا بارش(عمودی پانی) ۔ قدرتی نکاسی آب، دریاءوں ، ندیوں اور نالوں کی حدود کے اندر کسی بھی قسم کی تعمیر منع ہے۔
اظہارِ تشکر پیش کرتے ہوئے سرسید یونیورسٹی کے رجسٹرار کموڈور (ر) انجینئر سید سرفرازعلی ستارہ امتیاز ملٹری نے کہا کہ آج دو دلچسپ سیشن ہوئے جو معلومات سے بھرپور تھے ۔ گرین ہاءوسنگ سستی، مضبوط ہاوئسنگ ایک چیلنج ہے ۔ موجودہ دور میں Vernacular تعمیر بہت مقبول ہے ۔ یہ ایک ایسی طرز تعمیر ہے جس میں روایتی اور علاقائی میٹریل کے ساتھ تعمیر کی جاتی ہے جو اس علاقے کی طرز معاشرت اور جغرافیائی خصوصیات کی عکاسی کرتی ہے ۔ اس کی بہترین مثال بنگلہ دیش ہے جہاں فیصد سے زیادہ مکانات بانس سے بنائے جاتے ہیں کیونکہ اس ملک میں بانس کی پیداوار کثرت سے ہوتی ہے ۔
قبل ازیں ، خیرمقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے فیکلٹی آف سول انجینئرنگ اینڈ آرکیٹکچر کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر میر شبرعلی نے کہا کہ چیلنجوں سے نمٹنے اور مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے تمام جامعات کو لیڈرشپ اور جدید و نئے علوم کو پروان چڑھانے کی کوششیں کرنی چاہئے اور مواقعوں سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے ۔ یہ ایونٹ اپنی نوعیت کا ایک منفرد ایونٹ ہے اوریہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ سرسید یونیورسٹی کو پاکستان بھر میں اس نوعیت کے ایونٹس کو منعقد کرنے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ عبدالحامد دکنی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن
Comments are closed.