عوام پر کب تک معاشی بوجھ رکھا جائے گا!!! ذوالفقار علی میرانی

 

 

کالم

ایسا الگ رہا ہے جیسے ملک کے اندر معاشی بحران کا سارا بوجھ عوام کو ہی اٹھانا ہے۔ ملک کی معاشی حالات کو بہتر بنانے کیلئے حکران طبقہ آئے روز نئے نئے دلاسے دیتے ہوئے نظر آتا ہے کہ اب آئی ایم ایف کی اقساط مل جائے گی۔ اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے گا، اور قرضے کی اقساط ملنے کے بعد معاشی حالات کسی قدر پر بہتر ہوجائیں گی، اور عوام کو مختلف عام استعمال کی اشیاے سمیت کھانے پینے کی چیزوں پر ریلیف مل جائے گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آئی ایم ایف سے نو ماہ کا اسٹنڈ بائی معاہدہ بھی ہوچکا ہے، 1۔2 ارب ڈالرز کی پہلی اقساط بھی ملک میں پنہچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ چین کی طرف سے 600 ملین ڈالرز کا قرضہ رول اوور بھی ہوچکا ہے، اس کے باوجود بھی ملکی کی عوام کو ریلیف م؛لنے کا دلاسا، دلاسا ہی رہ گیا ہے۔ ملک کے مخٹلف شہروں میں گندم کے فی کلو قیمت کم ہونے کے باوجود آٹے کی قیمت دن بدن بڑہتی جارہی ہے اور اب تو گندم کا آٹہ 175 روپے فی کلو بازار میں سرعام فروخت ہورہا ہے۔ عام استعمال کی اشیائے سمیت کھانے پینے کی اشیائے کی قیمتبڑھنے کا سلسلہ جاری ہے، جس کے ابعث مہنگائی کی شرح بھی تاریخ کی بلندی کو چھو رہی ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ مختلف اشیائے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے ساتھ ساتھ ملک میں چینی کی قیمت میں بھی اضافہ معمول بن چکا ہے۔ سارے ملک میں چینی فی کلوگرام 155 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ آٹے کی قیمت بھی 175 روپے فی کلوگرام تک پنہچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ چند دنوں میں ڈالر اور سونے کی قیمت میں مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری ساری ہے۔ آخری اطلاعات تک ڈالر کی قیمت انٹر بینک میں 283۔80 روپے کا ہوگیا ہے، جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت290 روپے برقرار ہے، ایسی طرح عوام کیلے بجلی فی یونٹ پر بھی 07 روپٌے بڑا اضافہ کیا گیا ہے اور گیس کی قیمت میں اضافہ کرنے کے خدشات بھی موجود ہیں۔

ملک کے اندر اتنی مہنگائی کے بعد پیٹرولیم مصنوعات اور ڈیزل مکی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے، جو کب تک برقرار رہتی ہے، اس کے متعلق کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ ملک کے حکمرانوں کے دلاسے اور وعدے پانی پر لکیر ثابت ہو رہے ہیں۔ عوام کی امیدیں مہنگائی کے بہائو میں بہپتی نظر آرہی ہیں۔ آئی ایمایف  کے قرضے کے بدلے میں حکمرانوں نے جو شرائط قبول کی ہیں، ن کا ازالہ فقط عوام ہی کر رہی ہے۔ آئی  ایم ایف کے شرائط کو نظر میں رکھ کر مک کے حکمرانوں نے جو اخراجات کم کرنے کی دعوی کی تھی،یا اشرافیہ پر بوجھرکھنے کی جو بات کی تھی، وہ پوری ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہی ہے۔ حکمرانوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ قرض کی شرائئط کے مطابق جو ٹیکس لاگو کیے جائیں گے، ان کا بوجھ عوام پر کم سے کم پڑے گالیکن دیکھا جائے تو سیدھی طرح یا ٹیڑی طرح پر یہ سارا بوجھ عوام کے کندھو پر ہی آگرا ہے۔

ملک کے حکمرانوں نے آئی ایم ایف کی اقساط پر دارومدار رکھا، لیکن وہ قسط بھی جہاں ملک کے مالی خزانہ میں اضافے کا باعث بنی، وہ بھی عوام کو کسی اقسام کا ریلیف دے نہ سکی۔ ایس لگ رہا ہے کہ جیسے ملک کے حکمران کسی بھی طریقے سے اپنی میعاد مدت مکمل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اور عالمی قرضہ ملک کی عوام اپنے آپ پر ٹیکس ادا کرکے اتاردے گا۔ اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ اگر دوست ممالک کی طرف سے قرضہ رول اوور  کرنا اور آئیا یم ایف سے قسط حاصل کرنے کے باوجود عوام کو ریلیف نہیں مل سکا ہے، مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ جو ں کا توں جاری ہے، اور ڈالر خواہ سونہ کی قیمت کچھ روز کم ہونے کے بعد دوبارہ تیزی کے ساتھ بڑہ رہی ہے، پھر، بالآخر ایسے کون سے وسائل ہیں جس سے عوام کو ریلف دیا جا سکے گا؟

ملک کے حکمرانوں کو مہنگائی جیسے اہم ترین معاملے پر سوچنے کے ساتھ ساتھ اس کے حل کیلئے مناسب اقدامات اٹحانے پڑیں گے۔ کیوں کہ جب تک ملک کی عوام چین  کی سانس نہٰں لیتا ہے، تب تک ملک کی خوشحالی، تر1ی اور سلامتی ایک خواب ہی بنی رہے گی۔ عوام کو بھوک، بدحالی اور بے روزگاری سے باہر  نکالنے کیلئے حکمرانوں کو سب سے پہلے اپنے ذاتی، سیاسی اور گروہی اختلافات ایک  طرف رکھنے پڑیں گے، معاشی بحالی کیلئے متحد اور منظم ہوکر سیاسی غیر یقینی کی صورتحال پر مکمل طور پر ضابطہ لانا ہوگا۔ اس کے علاوہ ملک کی قدرتی خواہ پیداواری وسائل کو بہتر نمونے کی طور پر استعمال کرنے کی مکینزم تشکیل دینی چاہیے۔ اس سلسلے میں ملک کے حکمرانوں کو عوام کو ریلیف دینے سمیت ملک کی معاشی حالات کی اصلاح کیلئے لمبی میعاد مدت کی پائیدار پالیسیاں تشکیل دینی ہوں گی۔ جن سے ملک کی عوام کو عارضی نہٰں بلکہ مستقل بنیادوں پر خوشحال، ترقی یافتہ اور محفوظ بنایا جاسکے۔

Email:zulfiqar.meerani786@gmail.com ملک کے اندر معاشی بحران کا سارا بوجھ عوام کو ہی اٹھانا ہے۔ ملک کی معاشی حالات کو بہتر بنانے کیلئے حکران طبقہ آئے روز نئے نئے دلاسے دیتے ہوئے نظر آتا ہے کہ اب آئی ایم ایف کی اقساط مل جائے گی۔ اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے گا، اور قرضے کی اقساط ملنے کے بعد معاشی حالات کسی قدر پر بہتر ہوجائیں گی، اور عوام کو مختلف عام استعمال کی اشیاے سمیت کھانے پینے کی چیزوں پر ریلیف مل جائے گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آئی ایم ایف سے نو ماہ کا اسٹنڈ بائی معاہدہ بھی ہوچکا ہے، 1۔2 ارب ڈالرز کی پہلی اقساط بھی ملک میں پنہچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ چین کی طرف سے 600 ملین ڈالرز کا قرضہ رول اوور بھی ہوچکا ہے، اس کے باوجود بھی ملکی کی عوام کو ریلیف م؛لنے کا دلاسا، دلاسا ہی رہ گیا ہے۔ ملک کے مخٹلف شہروں میں گندم کے فی کلو قیمت کم ہونے کے باوجود آٹے کی قیمت دن بدن بڑہتی جارہی ہے اور اب تو گندم کا آٹہ 175 روپے فی کلو بازار میں سرعام فروخت ہورہا ہے۔ عام استعمال کی اشیائے سمیت کھانے پینے کی اشیائے کی قیمتبڑھنے کا سلسلہ جاری ہے، جس کے ابعث مہنگائی کی شرح بھی تاریخ کی بلندی کو چھو رہی ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ مختلف اشیائے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے ساتھ ساتھ ملک میں چینی کی قیمت میں بھی اضافہ معمول بن چکا ہے۔ سارے ملک میں چینی فی کلوگرام 155 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ آٹے کی قیمت بھی 175 روپے فی کلوگرام تک پنہچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ چند دنوں میں ڈالر اور سونے کی قیمت میں مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری ساری ہے۔ آخری اطلاعات تک ڈالر کی قیمت انٹر بینک میں 283۔80 روپے کا ہوگیا ہے، جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت290 روپے برقرار ہے، ایسی طرح عوام کیلے بجلی فی یونٹ پر بھی 07 روپٌے بڑا اضافہ کیا گیا ہے اور گیس کی قیمت میں اضافہ کرنے کے خدشات بھی موجود ہیں۔

ملک کے اندر اتنی مہنگائی کے بعد پیٹرولیم مصنوعات اور ڈیزل مکی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے، جو کب تک برقرار رہتی ہے، اس کے متعلق کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ ملک کے حکمرانوں کے دلاسے اور وعدے پانی پر لکیر ثابت ہو رہے ہیں۔ عوام کی امیدیں مہنگائی کے بہائو میں بہپتی نظر آرہی ہیں۔ آئی ایمایف  کے قرضے کے بدلے میں حکمرانوں نے جو شرائط قبول کی ہیں، ن کا ازالہ فقط عوام ہی کر رہی ہے۔ آئی  ایم ایف کے شرائط کو نظر میں رکھ کر مک کے حکمرانوں نے جو اخراجات کم کرنے کی دعوی کی تھی،یا اشرافیہ پر بوجھرکھنے کی جو بات کی تھی، وہ پوری ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہی ہے۔ حکمرانوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ قرض کی شرائئط کے مطابق جو ٹیکس لاگو کیے جائیں گے، ان کا بوجھ عوام پر کم سے کم پڑے گالیکن دیکھا جائے تو سیدھی طرح یا ٹیڑی طرح پر یہ سارا بوجھ عوام کے کندھو پر ہی آگرا ہے۔

ملک کے حکمرانوں نے آئی ایم ایف کی اقساط پر دارومدار رکھا، لیکن وہ قسط بھی جہاں ملک کے مالی خزانہ میں اضافے کا باعث بنی، وہ بھی عوام کو کسی اقسام کا ریلیف دے نہ سکی۔ ایس لگ رہا ہے کہ جیسے ملک کے حکمران کسی بھی طریقے سے اپنی میعاد مدت مکمل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اور عالمی قرضہ ملک کی عوام اپنے آپ پر ٹیکس ادا کرکے اتاردے گا۔ اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ اگر دوست ممالک کی طرف سے قرضہ رول اوور  کرنا اور آئیا یم ایف سے قسط حاصل کرنے کے باوجود عوام کو ریلیف نہیں مل سکا ہے، مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ جو ں کا توں جاری ہے، اور ڈالر خواہ سونہ کی قیمت کچھ روز کم ہونے کے بعد دوبارہ تیزی کے ساتھ بڑہ رہی ہے، پھر، بالآخر ایسے کون سے وسائل ہیں جس سے عوام کو ریلف دیا جا سکے گا؟

ملک کے حکمرانوں کو مہنگائی جیسے اہم ترین معاملے پر سوچنے کے ساتھ ساتھ اس کے حل کیلئے مناسب اقدامات اٹحانے پڑیں گے۔ کیوں کہ جب تک ملک کی عوام چین  کی سانس نہٰں لیتا ہے، تب تک ملک کی خوشحالی، تر1ی اور سلامتی ایک خواب ہی بنی رہے گی۔ عوام کو بھوک، بدحالی اور بے روزگاری سے باہر  نکالنے کیلئے حکمرانوں کو سب سے پہلے اپنے ذاتی، سیاسی اور گروہی اختلافات ایک  طرف رکھنے پڑیں گے، معاشی بحالی کیلئے متحد اور منظم ہوکر سیاسی غیر یقینی کی صورتحال پر مکمل طور پر ضابطہ لانا ہوگا۔ اس کے علاوہ ملک کی قدرتی خواہ پیداواری وسائل کو بہتر نمونے کی طور پر استعمال کرنے کی مکینزم تشکیل دینی چاہیے۔ اس سلسلے میں ملک کے حکمرانوں کو عوام کو ریلیف دینے سمیت ملک کی معاشی حالات کی اصلاح کیلئے لمبی میعاد مدت کی پائیدار پالیسیاں تشکیل دینی ہوں گی۔ جن سے ملک کی عوام کو عارضی نہٰں بلکہ مستقل بنیادوں پر خوشحال، ترقی یافتہ اور محفوظ بنایا جاسکے۔

Email:zulfiqar.meerani786@gmail.com

Daily Askar

Comments are closed.