کارونجھر پر سیاحت کو فروغ دیں

 

 

وشال امیر

میرا دوست دلو دیوانہ آج میرے پاس آیا اور خاموشی سے میرے سامنے بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ الجھن سے بھرا ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس کا شوگر کا جہاز ہے نہیں جو ڈوب گیا ہوگا یا اسکے پاس ٹرین بھی نہیں جس کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہو۔
میں اسے غور سے دیکھنے لگا تو اس کے ہاتھ میں ایک اخبار نظر آیا۔ میں نے سوچا کہیں دلو نے نیا عشق تو نہیں کیا اور اس کی محبوبہ نے کسی اور سے عدالتی بیاہ تو نہیں رچا لیا؟ شاید اس کی تصویر اخبار میں شایع ہوئی ہے کے انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔
میں نے پوچھا! اچھا آپ نے یہ اخبار اٹھا رکھی ہے؟
اس نے بغیر بولے اخبار کو میرے آگے پھینک دیا۔
مجھے یقین ہونے لگا کہ کوئی حسینہ بغیر سہارا دیے دلو کو اسٹیشن پر بٹھاکر چلی گئی ہے۔
میں نے اخبار کھولا اور تصویریں دیکھنے اور نیچے لکھے ہوئے کیپشن کو غور سے پڑھنے لگا۔ پھر اخبار میز پر رکھتے ہوئے کہا، “دلو!” یہاں کوئی تصویر نہیں ہے!
غصے میں اس نے کہا کے کیا تمہاری محبوبہ کی ماں نے پیار میں عدالتی بیاہ رچالیا ہے، جس کی تصویر ڈھونڈ رہے ہو؟
میں شرمندہ ہونے لگا،میں نے کہا شک نہ کرو، میں سمجھتا ہوں…!
میرا جملہ آدھا کاٹتے ہوئے بولا یہ اشتہار پڑھو۔
اشتہار پڑھتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف مائنز اینڈ منرل ڈویلپمنٹ حکومت سندھ کی طرف سے اشتہار جاری کیا گیا تھا جس میں کارونجھر پہاڑ سے گرینائٹ اٹھانے کیلئے ٹینڈر منگوایا گیا تھا۔
دل کی دھڑکن بڑھ گئی، میں سمجھ گیا کہ یہ دیوانہ اس معاملے سے پریشان ہے۔ میں نے کہا، تم اس معاملے میں کیوں پریشان ہو، تمہارامے گھر کو کیسے نقصان ہوگا، تمہاری جائیدادیں تو نہیں لٹ جائیں گی۔
اس نے مجھے حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا آپ دیس کا سودہ کرنے والے دلال بن گئے ہو۔
میں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں، میرے خیال میں گرینائٹ بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔
حیران ہو کر بولا تم نے بھنگ پی لی ہے یا افیون کھائی ہے؟ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ زمین بیچنے والے دلالوں کے گروہ کے ساتھی بن گئے ہیں۔
میں نے کہا دلو دیوانے سوچ سمجھ کر بولو، کیا تمہیں گرینائٹ کی قیمت معلوم ہے؟ اسے فروخت کرنے سے سندھ خصوصاً تھر میں خوشحالی آئے گی۔
اس نے کہا ہاں میں اچھی طرح جانتا ہوں لیکن تم کارونجھر کی حقیقت اور حیثیت نہیں جانتے۔

میں نے کہا میں نے تاریخ پڑھی ہے، بہت سی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک روایت کے مطابق پارکر کے قریب رن کچھ کی پٹی کے درمیان سے کبھی ایک سمندری گزرگاہ تھی، جسے یہاں آنے والوں کو پار کرنا پڑتا تھا، اس لیے وہ اسے ’’پار اوکر‘‘ کہتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور افسانہ یہ بھی مشہور ہے کہ پارسر نامی ایک رشی کو کارونجھر پہاڑ میں ساردری کے قریب ایک جگہ پسند آئی، اس نے وہاں تپسیا کی اور وہ ایک ہزار سال تک اپنے پنجوں کے بل کھڑا رہا۔ اس وجہ سے اس کو پہلے پارسر پھر پارکر بولا جاتا رہا۔
قدرے سرد مہری سے اس نے کہا، “کارونجھر کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟”
میں نے کہا انسائیکلوپیڈیا سندھیانہ کے مطابق پارکر میں کارونجھر پہاڑ سولہ میل چوڑا ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق اس کی چوڑائی 19 کلومیٹر اور اونچائی 305 میٹر ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ مرغی کے انڈے کی شکل میں ہے جس کے درمیان وادیاں ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں اس کا رقبہ 32 میل اور کچھ کہتے ہیں 20 میل ہے، لیکن سندھ گزیٹئر میں 12 میل رقبہ معلوم ہوتا ہے۔ اس پہاڑ کی سب سے بڑی چوٹی سطح زمین سے ایک ہزار فٹ بلند ہے اس چوٹی کو ’’صاحب چنگا‘‘ کہتے ہیں۔
پوچھنے لگا اس کے متعلق آپ مزید اور کیا جانتے ہیں؟
میں نے کہا آپ مجھ سے کیا پوچھنا یا کیا بتانا چاہتے ہیں؟
کہنے لگا میں آپ سمیت سندھ کے تمام لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اس کارونجھر میں سندھ کی تاریخ لکھی گئی ہے، کارونجھر کے دامن میں سڈونت اور سارنگا، ہوتھل پری اور جام اوڈھو، بھیرو اور گاوڑی، موندر کی ستی پھول کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ یہاں خوبصورت پریوں کے ٹھکانے تھے۔ جین مت کے رشی پارس ناتھ نے یہاں تپسیا کی، ان کی یاد میں بنائے گئے جین مندر کے ساتھ ساتھ اس پہاڑ میں ہندو مت کے 108 تیرتھ ہیں، جن میں بھیم گوڈو، بھیم تالاب، ارجن بان، گاومکھ، سارد روم اور آنچلسریا شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اس پہاڑ میں روپلو کولھی اور ان کے دوستوں کی حب الوطنی کی داستانیں گونج رہی ہیں۔ اب بھی اس پہاڑی کے دامن میں روپلو کولھی کے قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کے گھر بنے ہوئے ہیں، جو کارونجھر پہاڑی سے گھاس اور لکڑیاں اکٹھی کرکے بالائی دیہات میں فروخت کرتے ہیں۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’’کارونجھر پہاڑ روزانہ سینکڑوں سونا دیتا ہے‘‘ اس کہاوت سے اس پہاڑ کی معاشی اہمیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس پہاڑ میں بہت سے ایسے پودے پائے جاتے ہیں جن کی اہمیت طبی دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے۔ ان پودوں میں کھوکھر، گنوال، ستاوڑی، جھنگلی پیاز، شیوجاتی، آٹھ کنٹھی بہت اہم ہیں، لیکن ان سب میں گوگارو کا پودا بہت مفید ہے۔ اس سے گوند حاصل کی جاتی ہے جو اس وقت 30 ہزار فی کلو میں فروخت ہوتی ہے۔
میں نے کہا آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ گرینائٹ 8واں مہنگا پتھر ہے، اس لیے اسے پوری دنیا میں عمارت کی تعمیر کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کارونجھر پہاڑ کے گرینائٹ جیسے رنگوں کی خوبصورتی دنیا کے کسی اور گرینائٹ میں شامل نہیں۔ یہاں کے گرینائٹ میں سیاہ رنگ کی رگیں ہیں، جن میں سیاہ، سفید، پیلا اور سرخ رنگ مختلف قطروں کی طرح کے نمونوں کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پتھر کو بیچ کر دنیا سے بہت زیادہ پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔
دلو دیوانہ پھر غصے میں آگیا، کہنے لگا کہ پارکر کو سیاحتی سہولیات فراہم کرکے سیاحت سے پیسہ کمایا جاسکتا ہے، وہ پیسہ مستقل ہوگا۔ تاہم گرینائٹ بیچ کر آپ صرف اس وقت تک پیسہ کما سکتے ہیں جب تک کہ گرینائٹ دستیاب ہو۔
میں نے کہا دلو ! میں آپ کی اس تجویز سے متفق ہوں۔
اس نے کہا براہ کرم مجھے بتائیں کہ دنیا میں ایسی کوئی مثال کہیں موجود ہے کہ پیسہ کمانے کی آڑ میں تاریخی مقامات کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہو۔
میں نے کہا دلو ! میرے خیال میں ایسی مثال کہیں نہیں ملتی۔صرف سندھ میں یہ روایت پروان چڑھی ہے کہ تاریخی مقامات کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ممکن ہے کہ مستقبل میں پیسے کمانے کی آڑ میں بانی پاکستان کے مزار کو بھی بیچ کر وہاں شاپنگ مال بنائے جائیں۔

Daily Askar

Comments are closed.