سرسید یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام بین الاقوامی ڈی این اے ڈے کے حوالے سے جینیٹک کے موضوع پر سمپوزیم کا انعقاد۔
سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی۔کراچی
یونیورسٹی روڈ، گلشن اقبال، کراچی۔۔
سرسید یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام بین الاقوامی ڈی این اے ڈے کے حوالے سے جینیٹک کے موضوع پر سمپوزیم کا انعقاد۔
کراچی، 31/مئی2023ء۔۔سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ بائیومیڈیکل انجینئرنگ کے زیرِ اہتمام بین الاقوامی ڈی این اے ڈے کے حوالے سے”One Humanity, One Genome” کے موضوع پر ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا جس میں طلباء اور اساتذہ کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سرسید یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین نے کہا کہ بائیومیڈیکل انجینئرنگ صرف طبی آلات بنانے اور مرمت کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک بین الا شعبہ جاتی فیلڈ ہے جو تحقیق، اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ جینوم پر تحقیق کا مقصد انسانی ڈی این اے کی ترتیب اور ساخت اور صحت پر اس کے اثرات کا تجزیہ کرنا ہے۔جینیٹکس کا مقصد انسانی جین کی سائنسی تشریح کے لیے درکار بنیادی معلومات کا حصول ہے اور اس بات کا مشاہدہ کرنا ہے کہ صحت اور بیماری میں مختلف جین کا کیا کردار ہوتا ہے۔
پاکستان سائنٹیفک اینڈ ٹیکنولوجیکل انفارمیشن سینٹر (PASTIC) کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر افشین طارق نے کہا کہPASTIC فروغِ علم اور تحقیق کا ایک مرکز ہے جس کا بنیادی مقصد سا ئنٹفک اکیڈمک اصولوں اور تحقیق سمیت سائنٹفک اسٹڈی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کافروغ ہے۔
ملیر یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ڈین فیکلٹی آف الائیڈ ہیلتھ سائنسزڈاکٹر صدف اکبر نے کہا کہ ڈی این اے انسانی زندگی کی بنیاد ہے۔چند جینیاتی تبدیلیاں پیدائشی معذور بچے، یا بعد ازاں معذوری یا کینسر اور دل جیسی مہلک بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر بلال عزمی نے کہا کہ ڈی این اے ایک نیم قدامت مادہ ہے جس کا مطلب ہے کہ بچے کی شخصیت کی تعمیر میں پچاس فیصد خود اس کا اور پچاس فیصد اس کے والدین کی خصوصیات کا دخل شامل ہوتا ہے۔جینیاتی تغیرات ایک قسم کی تبدیلی ہے۔ڈی این اے کو جرائم کی تحقیق میں استعمال کیا جاتا ہے اور تفتیش میں یہ بہت کام آتا ہے۔
جامعہ کراچی کے شعبہ بائیومیڈیکل کی پروفیسر ڈاکٹر شمیم اختر نے کہا کہ انسولین، جینیاتی انجینئرنگ کی ایک بہت اہم پروڈکٹ ہے۔یہ پری کرسر پروٹین،پری۔ پرو انسولین کے طور پر تشکیل پاتا ہے۔
سرسیدیونیورسٹی کے رجسٹرار کموڈور (ر) انجینئر سید سرفراز علی نے کہا کہ ڈی این اے کو سمجھنے کے حوالے سے ہم نے گزشتہ چند برسوں میں کافی ترقی کرلی ہے۔ڈی این اے انسانی زندگی کا بنیادی تعمیری یونٹ ہے۔علمِ جینیات کی قیمتی معلومات نے دوائیوں کے ایک نئے دور کا آغاز کیاجو کسی بھی فرد کے مخصوص ڈی این اے کے مطابق موزوں علاج پیش کرتا ہے۔
شعبہ بائیومیڈیکل انجینئرنگ کی چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹرسدرہ عابد سید نے کہا کہ نئی ٹیکنالوجی ہر ایک کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کر رہی ہے۔جنیاتی تھراپی ان بیماریوں کو سمجھنے اور ان کا علاج کرنے میں مدد کرے گی جو انسانی زندگی کے لیے خطرہ ثابت ہورہی ہیں۔۔
اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے ڈین فیکلٹی آف الیکٹریکل اینڈ کمپیوٹر سائنسز پروفیسر ڈاکٹر محمد عامر نے کہا کہ یہ تقریب فروغ ِ علم و تحقیق کے لیے ہمارے عزم کا حقیقی ثبوت ہے اور بین الاقوامی ڈی این ڈے منا کر ہم نے ایس ڈی جی 3 (Sustainable Development Goal 3) کا ہدف پورا کیا ہے۔
اس موقع پر سرسید یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریٹس ڈاکٹر ایم اے حلیم اور المنائی طاہر جلیل نے بھی خطاب کیا۔ عبدالحامد دکنی
ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن
کیپشن: سرسید یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین، ڈاکٹر صدف اکبر،رجسٹرار کموڈور (ر) انجینئر سید سرفراز علی اورپروفیسر ڈاکٹرسدرہ عابد سید سمپوزیم سے خطاب کررہے ہیں۔
Comments are closed.