دنیا بھر میں آزادی، مساوات اور انسانی حقوق کے علمبردار ہر وقت عدل و انصاف کے دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ مغربی ایوانوں سے لے کر اقوام متحدہ کے اجلاسوں تک، انسانی وقار، بنیادی حقوق اور آزادی کی پاسداری پر بلند و بانگ تقاریر سننے کو ملتی ہیں۔ مگر جب بات *مقبوضہ جموں و کشمیر کے ان قیدیان ضمیر کی آتی ہے، جو محض اپنے حقِ خودارادیت اور آزادی کے حصول کی پاداش میں دہائیوں سے بھارتی جیلوں کی کال کوٹھریوں میں پابند سلاسل ہیں* ، تو *عالمی ضمیر خاموش اور بے حس نظر* آتا ہے۔
کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ *کوئی شخص اپنی زندگی کے چالیس قیمتی سال قید و بند میں گزار دے؟ یہ کوئی قصہ یا داستان نہیں بلکہ کشمیری حریت رہنماؤں اور کارکنان کی تلخ حقیقت ہے* ۔
*شبیر احمد شاہ* ، جنہیں “کشمیر کا *نیلسن منڈیلا* ” ” *ضمیر کا قیدی* ” اور *جیل کا پرندہ* بھی کہا جاتا ہے، *اپنی زندگی کے 38* سال *بھارتی جیلوں* میں گزار چکے ہیں اور آج بھی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ اسی طرح مسرت عالم بٹ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی، ڈاکٹر قاسم فکتو، ایاز اکبر، مولوی بشیر عرفانی، نعیم خان، حمید فیاض، مشتاق الاسلام ،اور بے شمار دوسرے رہنما و کارکن اپنی جوانی، بڑھاپے، اور زندگی کے قیمتی لمحات ظالم جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان قیدیوں کو بھارتی جیلوں میں نہ صرف تنگ و تاریک کوٹھریوں میں رکھا گیا ہے بلکہ انہیں طبی سہولیات تک سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بیمار پڑنے پر دوا ملنا ایک خواب ہے، اور جیل حکام کا رویہ سراسر تضحیک آمیز اور غیر انسانی ہے۔ اس سب کے باوجود یہ *اسیران اپنی جدوجہد اور موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ یہ استقامت، شجاعت اور ایمان کا وہ پہاڑ ہیں جنہوں نے اپنی آزادی قربان کر دی مگر اپنی قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جھکنے* نہیں دیا۔
نیلسن منڈیلا نے 27 سال جیل میں گزارے تو دنیا بھر میں شور مچ گیا۔ اس کی رہائی کے لئے عالمی مہم چلائی گئی اور آخرکار اسے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ مگر کشمیری حریت رہنما ،انسانی حقوق کے علمبردار جو 30، 35 اور 40 سال سے بھارتی جیلوں میں قید ہیں، ان کی طرف کسی عالمی طاقت کی نگاہِ التفات نہیں جاتی۔ نہ اقوام متحدہ متحرک ہوتا ہے، نہ انسانی حقوق کی تنظیمیں سنجیدہ کردار ادا کرتی ہیں، نہ او آئی سی کوئی عملی اقدام اٹھاتی ہے۔ یہ دہرا معیار آخر کب تک جاری رہے گا؟
زرا سوچئے! *ایک شخص جو اپنے بچوں، والدین اور شریکِ حیات سے چالیس برس سے دور ہے۔ والدین دنیا سے رخصت ہو گئے مگر وہ ان کے جنازے میں بھی شریک نہ ہو سکا۔ بچے یتیمی کی حالت میں جوانی کی دہلیز پر پہنچ گئے مگر ان کے والد زندان کی سلاخوں کے پیچھے استقامت کے ساتھ کھڑے رہے۔ کون سوچ سکتا ہے ان قیدیوں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ وہ کس کرب اور اذیت کے عالم میں اپنی تاریک راتیں کاٹتے ہیں؟ مگر ان سب اذیتوں کے باوجود ان کی واحد تمنا یہ ہے کہ ان کی قوم آزاد ہو، کشمیر غلامی کی زنجیروں سے نکلے اور آنے والی نسلیں سر اٹھا کر جی سکیں* ۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ سب قربانیاں انہوں نے کس کے لیے دی ہیں؟ صرف اور صرف ہماری آزادی اور حقِ خودارادیت کے لیے۔ مگر کیا ہم نے بدلے میں انہیں کچھ دیا؟ افسوس کہ ہماری بے حسی اور خاموشی نے ان کی قربانیوں کو تنہا کر دیا۔ اگر یہ عظیم لوگ کل روزِ قیامت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے ہماری بے وفائی اور غفلت کی شکایت کریں تو ہم کیا جواب دیں گے؟
لہٰذا وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں پہچانیں۔ ہم ان قیدیانِ ضمیر کی آواز بنیں۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ بھارت کو مجبور کریں کہ ان بے گناہ قیدیوں کو رہا کرے۔ ہمیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا ہوگا، تحریروں، آوازوں،احتجاجوں،سمیناروں اور عملی اقدامات کے ذریعے۔
یہ محض قیدی نہیں بلکہ *ہمارے محسن ہیں۔ یہ وہ چراغ ہیں جنہوں نے اپنی آزادی قربان کرکے ہماری راہوں کو روشن کیا۔* اگر ہم آج بھی خاموش رہے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ آئیے ہم سب مل کر ان کی قربانیوں کو زندہ رکھیں، ان کی آواز کو دنیا تک پہنچائیں اور آزادی کے سفر میں ان کا ساتھ نبھائیں۔ یہی ہمارا فرض ہے، یہی ہماری ذمہ داری ہے۔
Comments are closed.