اسلامی تعلیمات کے تناظر میں: افغان طالبان کی سرپرستی، پاکستان کا دفاع اور شرعی جواز
خلاصہ: پاکستان نے اپنے شہریوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ریاستی سالمیت کے تحفظ کے لیے افغانستان سے دہشتگرد عناصر کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کی — یہ اقدام شرعی اور ریاستی نقطۂ نظر سے جائز و لازم ہے۔ پاکستان کی بارہا سفارتی کوششوں کے باوجود افغان رجیم نے فتنہ الخوارج کی سرپرستی ترک نہیں کی، جس کے بعد 10–13 اکتوبر 2025 کوپاکستان پر بلاوجہ حملے بھی ہوئے۔
—
تعارف
اسلام شریعت اور بین الاقوامی قانون دونوں کے بنیادی اصولوں میں خودِ دفاع اور اپنی مردم و ملک کی حفاظت ایک بنیادی حق قرار پایا ہے۔ جب کوئی گروہ غیرقانونی طریقے سے ریاست کے اندرونی امن و امان کو تباہ کرتا ہے، شہریوں کو قتل کرتا ہے اور معصوم بچوں و عورتوں کو ذبح کرتا ہے تو اس کے خلاف دفاع شرعاً اور ریاستی طور پر لازم بنتا ہے۔
شرعی حوالہ اور فتوائیاتی بنیاد
امام ابن حجر عسقلانی نے فرمایا ہے کہ جو کوئی خوارج کی حمایت کرے یا انہیں اسلحہ/مال فراہم کرے وہ بھی خوارج کے زمرے میں آتا ہے (فتح الباری) — اس کا اطلاق ان فریقوں پر بھی ہوتا ہے جو دہشتگردی کی سرپرستی کرتے ہیں۔
روایت (ابو ہریرہ): «مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ … فَقُتِلَ، فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ» — اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیرشرعی، تعصّب آمیز یا طاقت کے نشانات کے تحت لڑنے والے عمل جاہلیت شمار کیے جائیں گے۔
جِہاد (قتال) ریاستی تشکیلات اور مجاز اداروں کا مختصّہ اختیار ہے؛ کسی فرد یا گروہ کو خودسرانہ طور پر مسلح کارروائی کا حق حاصل نہیں۔ اس روحِ شریعت کے تحت ریاست پاکستان کو شرعی اور قانونی دائرہ کار میں دہشتگرد عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہے۔
حقائق و اعداد و شمار
سن 2025 میں پاکستان میں کل 2,809 حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 126 افغان ہلاک ہوئے؛ ان میں 8 حملہ آور خودکش تھے — یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ افغان براہِ راست ملوث عناصر کی شمولیت کا امکان موجود ہے۔
پاکستان نے سرحدی تحفظ اور مسئلے کے پُرامن حل کے لیے متواتر سفارتی اور حفاظتی کوششیں کیں: وزیردفاع و ڈی جی آئی ایس آئی کے 2 دورے، نمائندہ خصوصی کے 5 دورے، سیکرٹری کے 5 دورے، نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کا 1 دورہ، جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کی 8 میٹنگز، 225 بارڈر فلیگ میٹنگز، 836 احتجاجی مراسلے اور 13 ڈیمارشز — ان تمام اقدامات کے باوجود افغان حکومت نے خوارج کی سرپرستی ترک نہ کی۔
دفاعِ ریاستی اور کارروائی کا جائزہ
جہاں تک سوال ہے کہ خوارج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا اسلام کے منافی ہے یا نہیں: موجودہ صورتِ حال میں جب وہی گروہ ہزاروں بےگناہ مسلمانوں کو قتل کرچکے، معصوم بچوں اور عورتوں کو ذبح کیا، اور ریاست کی بقا کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، تو ان ٹھکانوں کے خلاف کارروائی شرعی، اخلاقی اور بین الاقوامی قانونی دائرے میں دفاعِ خود اور عوامی سلامتی کے لیے جائز اور لازم سمجھی جاتی ہے۔
پاکستان کی یہ کارروائی ریاستی سالمیت، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور خطے میں دائمی امن کے حصول کے لیے ضروری قرار دی گئی — یہی موقف مذاکرات میں بھی دہرایا گیا اور افغانستان پر واضح تقاضے رکھے گئے کہ وہ دہشتگرد سرپرستی ترک کرے۔
افغان رِجِم کی عسکری کارروائی اور بین الاقوامی تناظر
پاکستان کے حفاظتی و سفارتی اقدامات کے باوجود، افغان رجیم نے 10–11 اکتوبر اور 12–13 اکتوبر 2025 کو بلا اشتعال حملے کیے؛ یہ حملے خاص طور پر اس وقت کیے گئے جب افغان وزیرِ خارجہ ملا متقی ہندوستان کے دورے پر تھے — آئندہ شواہد و تحقیقات بین الاقوامی شواہد کی بنیاد پر اس سلسلے میں مزید وضاحت طلب ہیں۔
مذاکرات کی ثالثی دوحہ، قطر اور ترکی کے ذریعے عمل میں آئی؛ مذاکرات کے دوران پاکستان نے واضح کیا کہ علاقائی امن کا تسلسل اسی وقت ممکن ہے جب دہشتگردانہ سرپرستی ختم کی جائے۔
عالمی و فقہی اتفاقِ رائے
ملک کے علماء و فقہاء کی عمومی رائے یہ ہے کہ شدت پسندی، فرقہ وارانہ نفرت اور طاقت کے زور پر نظریات نافذ کرنا اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔
نفاذِ شریعت کے نام پر ریاست کے خلاف مسلح محاذآرائی، خودکش حملے اور شہری آبادی کو قتل کرنا شرعاً و اخلاقاً ممنوع اور فساد فی الارض ہے — اس لیے ریاست پاکستان کی قانونی کارروائی فقہی اصولوں کے تابع ہے۔
نتیجہ و سفارشات
1. ریاستِ پاکستان نے اپنے اندرونی استحکام اور عوام کی حفاظت کے لیے جو اقدام کیا وہ شرعی، اخلاقی اور بین الاقوامی نقطۂ نظر سے دفاعِ لازم میں آتا ہے۔
2. خطے میں پائیدار امن کے لیے درکار ہے کہ افغانستان میں موجود حکومتی ادارے دہشتگرد عناصر کی سرپرستی فوراً ختم کریں اور سرحدی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کریں۔
3. مذاکرات، ثالثی اور علاقائی تعاون ہی اس بحران کا مستقل حل ہیں؛ تاہم جب امن کی کوششیں ناکام ہوں تو ریاست کا دفاع اولین ترجیح رہے گا۔
4. علماء اور رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اعتدال اور برداشت کے ذریعے افہام و تفہیم کی راہیں ہموار کریں اور شدت پسندی کے نظریات کو مسترد کریں۔
Comments are closed.