جب ایک جنرل کے الفاظ قوم کا عقیدہ بن گئے
تحریر: محمد محسن اقبال
انسان کی زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو اسے اُس کی حاصل کردہ فتوحات سے نہیں بلکہ اُن سبقوں سے تراشتے ہیں جو وہ لمحے چھوڑ جاتے ہیں۔ میری زندگی کا سب سے پہلا خواب نہایت سادہ مگر اُتنا ہی وسیع تھا جتنا آسمان — میں پاک فضائیہ کا پائلٹ بننا چاہتا تھا۔ میٹرک کے بعد جب میں نے پی اے ایف کے ابتدائی امتحانات کامیابی سے پاس کیے تو دل اُمیدوں سے لبریز تھا۔ میں آئی ایس ایس بی کوہاٹ پہنچا — ایک نوجوان دل میں وطن کی خدمت کے جذبات، اور نگاہوں میں نیلی فضاؤں کے خواب لیے۔ پانچ چھ دن کی کڑی مشقوں، انٹرویوز اور بے خوابی کی راتوں کے بعد جب گھر لوٹا، تو ڈاکیے نے ایک لفافہ تھمایا۔ اندر لکھے چند الفاظ ‘ آپ کو منتخب نہیں کیا گیا ہے’ میرے لیے بجلی کے کڑاکے سے بھی زیادہ گہرے تھے۔ لمحہ بھر کو دل بیٹھ گیا، مگر حوصلہ نہیں ٹوٹا۔
میں نے عزم کیا کہ اگر ایک دروازہ بند ہوا ہے تو دوسرا ضرور کھلے گا۔ ایف ایس سی کے بعد 1986ء میں میری نگاہیں ایک بار پھر وطن کی خدمت پر جمی تھیں — اب کی بار پاک فوج کے دروازے پر۔ میں نے دوبارہ امتحانات دیے، مراحل طے کیے، اور قسمت نے پھر کوہاٹ کی راہیں دکھائیں۔ تمام مراحل حوصلے سے گزرے، لیکن آخری دن کمانڈنٹ کے انٹرویو نے فیصلہ صادر کیا۔ اُن کی بات آج تک ذہن میں نقش ہے — “بیٹا، تم فوج سے زیادہ سول سروس میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہو۔” یہ الفاظ بظاہر انکار تھے مگر درحقیقت ایک نصیحت، ایک رہنمائی۔ ایک بار پھر جواب “نہیں” تھا، لیکن یہ “نہیں” میری داستان کا اختتام نہیں بلکہ آغاز تھا۔
وقت کے ساتھ سمجھ آیا کہ جوانی کی ناکامیاں دراصل کردار کی بنیاد رکھتی ہیں۔ وہ لمحے جنہیں کبھی دکھ سمجھا تھا، دراصل نصیب کے دروازے تھے۔ اب یہ حقیقت آشکار ہے کہ وطن کی خدمت کے لیے وردی پہننا ضروری نہیں — خلوص، ایمان اور جذبہ ہی اصل سپاہ گری ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کس کو کس مقام پر کھڑا کرنا ہے۔
اکتوبر 2025ء کی ایک صبح میں وقت کے دریچوں میں کھویا بیٹھا تھا جب میری نگاہیں ٹیلی ویژن اسکرین پر مرکوز تھیں۔ اسکرین پر فتح مند سپہ سالار، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر، اپنے نو تربیت یافتہ افسروں سے خطاب کر رہے تھے۔ اُن کے الفاظ میرے دل کی گہرائیوں میں اُترتے چلے گئے۔ اُن کا انداز، اُن کی باتوں کا وزن، اُن کے لہجے کی ایمان افروز گونج — سب کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے ایک نوزائیدہ بچے کو پہلی گھُٹی دی جا رہی ہو، جیسے ایک نسل کو پہلی بار قومیت کی روح پلائی جا رہی ہو۔
فیلڈ مارشل کے الفاظ نہ رسمی تھے، نہ خطیبانہ؛ وہ دل سے نکلے اور دلوں میں اُتر گئے۔ اُنہوں نے اپنے افسروں کی پیشہ ورانہ قابلیت، نظم و ضبط، اور کردار کی عظمت کو سراہا۔ اُنہوں نے کہا کہ پاک فوج کی تاریخ قربانی، شجاعت اور وفا کی زندہ تفسیر ہے۔ اُنہوں نے حالیہ فتوحات کا ذکر کیا — دشمن کے خطرناک عزائم کو ناکام بنانے، جدید جنگی ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے اور ملٹی ڈومین آپریشنز میں مہارت دکھانے پر افواجِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اُن کا انداز نہ غرور کا تھا نہ مبالغے کا — بلکہ ایمان، یقین اور حقیقت پر مبنی۔
سب سے زیادہ جس بات نے میرے دل کو چھوا وہ اُن کا اخلاقی وضاحت اور فکری استقامت پر زور دینا تھا۔ اُنہوں نے کہا:
“تم شہیدوں کے وارث ہو — اُن کی یاد کے قابل بن کر جیو۔”
یہ الفاظ جیسے میرے دل کے نہاں خانوں میں چراغ جلانے لگے۔ اُنہوں نے اپنے افسروں کو نصیحت کی کہ جسمانی طاقت کے ساتھ ذہنی تیاری اور علمی برتری بھی لازم ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس دورِ فتن میں، جہاں سچائی کو جھوٹ سے بدلنے کی سازش عام ہے، ایک افسر کا سب سے بڑا ہتھیار اُس کا صاف ذہن اور پختہ ضمیر ہے۔
اطلاعاتی فتنوں اور جھوٹے بیانیوں کے شکار مت بنو،” اُنہوں نے تنبیہ کی۔ “سچ کو پہچاننا اور اُس پر قائم رہنا ایک سپاہی کی سب سے بڑی بہادری ہے”۔
اُن کے الفاظ کے تسلسل میں ایک پیغام بار بار گونج رہا تھا — فتح تقریروں سے نہیں بلکہ تربیت، کردار اور عزم سے حاصل ہوتی ہے۔
ایک ایسا شخص ہونے کے ناتے جسے کبھی آئی ایس ایس بی کے بورڈز نے دو بار مسترد کیا تھا، یہ خطاب میرے لیے عاجزی اور فخر دونوں کا امتزاج تھا۔ جرنیل کے الفاظوں نے میرے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھا۔ وہ خطاب جیسے دریا کو کوزے میں بند کرنے جیسا تھا — اُس میں قومی قربانی کی وسعت، جدید جنگ کی پیچیدگی اور فرض کی نزاکت سب سموئے ہوئے تھے۔ جہاں میرے جوانی کے خواب صرف وردی اور اُڑان تک محدود تھے، اب میرا دل اُس وسیع تر خدمت پر جھک گیا جس کا نام ہے — وطن کی عزت اور بقا۔
میں نے محسوس کیا کہ خدمت کی کوئی ایک شکل نہیں ہوتی۔ چاہے کوئی سول افسر ہو، استاد ہو، محقق، صحافی، والد یا سپاہی — سب ایک ہی پرچم کے محافظ ہیں۔ یہی قومیت کا حسن ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ وطن کی بنیادوں کو مضبوط کر رہا ہے۔
فیلڈ مارشل نے کہا کہ عوام اور افواج کا رشتہ فولاد سے زیادہ مضبوط ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ عوام کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی فرض نہیں، وطن کے دفاع سے بڑی کوئی عبادت نہیں۔ اُنہوں نے پاکستان کے عالمی کردار، امن قائم رکھنے کی کاوشوں، اور کشمیر و فلسطین کے مظلوم بھائیوں کے لیے مسلسل حمایت کا ذکر کیا۔ انہوں نے شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا:
“پاکستان کا پرچم، ان شاء اللہ، ہمیشہ بلند رہے گا کیونکہ اس کے محافظ — یعنی پاکستانی قوم — کبھی ناکام نہیں ہوتی۔”
آج جب میں اپنے ماضی کو دیکھتا ہوں، تو وہ دونوں “نہیں” میرے لیے اب انعام بن چکے ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک اور مقدس خدمت کی طرف موڑا — ریاست کی فکری و انتظامی خدمت۔ اُن انکاروں نے مجھے صبر، عاجزی اور خدمت کے سلیقے سکھائے۔ فیلڈ مارشل کا خطاب میرے لیے ایک اور سبق تھا:
قیادت حکم دینے کا نام نہیں، ضمیر جگانے کا نام ہے۔ قیادت امتیاز کا نہیں بلکہ خدمت کا استعارہ ہے۔
آج بھی میں اُسی جذبے کے ساتھ، عاجزی و اخلاص کے ساتھ اپنے وطن کے لیے کوشاں ہوں۔ تقدیر نے اگر مجھے کاک پٹ سے محروم رکھا، تو بدلے میں قلم دیا — وہ قلم جو قوموں کے شعور کو جگاتا ہے، حق کو روشن کرتا ہے، اور تاریخ کا امین بنتا ہے۔
جب ایک فاتح جنرل اپنے افسروں سے خطاب کرتا ہے، تو اُس کے الفاظ نوزائیدہ بچے کے کانوں میں دی جانے والی اذان کی مانند ہوتے ہیں — ایک پکار، ایک عہد، ایک ایمان۔ وہ انہیں جگاتا ہے، بیدار کرتا ہے، اور اُن کے سینوں میں وطن کی محبت کو ابدی کر دیتا ہے۔
اللہ کرے کہ ہم سب — چاہے سپاہی ہوں یا شہری — اُس پکار پر لبیک کہیں، ایمان سے بھرے دلوں اور عمل کے لیے تیار ہاتھوں کے ساتھ۔
پاک افواج زندہ باد۔
پاکستان ہمیشہ پائندہ باد۔
Comments are closed.