عسکر انٹرنیشنل رپورٹ
گلگت، 20 اکتوبر 2025ء:
فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ آفس (FCDO)، برطانوی سفارتخانہ، ڈبلیو ڈبلیو ایف جرمنی و پاکستان اور مختلف بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی وفد نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی (KIU) کا دورہ کیا، جہاں ماحولیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار قدرتی وسائل کے انتظام سے متعلق امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
جامعہ کے محکمہ تعلقات عامہ کے مطابق، وفد نے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عطااللہ شاہ سے ملاقات کی، جنہوں نے وفد کو یونیورسٹی کی جاری تحقیقی سرگرمیوں سے آگاہ کیا، جن میں گلشیئرز کے پگھلاؤ، مساکن کی بحالی اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت پر مبنی ماحولیاتی منصوبے شامل ہیں۔
ڈاکٹر عطااللہ شاہ نے کہا کہ جامعہ کی کوششیں نہ صرف سائنسی فہم میں اضافہ کر رہی ہیں بلکہ مقامی آبادی میں ماحولیاتی تحفظ کے شعور اور تعلیم کو بھی فروغ دے رہی ہیں تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے۔
بعدازاں وفد نے جامعہ کے سینٹر برائے حیاتیاتی تنوع اور قدرتی وسائل کے انتظام کا دورہ کیا، جہاں انہیں بایو ڈائیورسٹی ہاٹ اسپاٹس پر ڈیٹا پر مبنی تحقیق اور مختلف اداروں کے ساتھ شراکت داریوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ وفد نے ماحولیاتی تحفظ اور آفات سے نمٹنے کے حوالے سے KIU کی تحقیقی خدمات کو سراہا اور مستقبل میں تعاون کے فروغ، مشترکہ فنڈنگ اور کلائمیٹ ریسرچ کے منصوبوں میں توسیع کی خواہش کا اظہار کیا۔
اسی روز جامعہ میں “یوتھ فار کلائمیٹ” کے عنوان سے ایک تقریب بھی منعقد کی گئی، جس کا اہتمام یوتھ فار کلائمیٹ پاکستان، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، وزیراعظم یوتھ پروگرام، حکومت گلگت بلتستان اور یونیسیف کے اشتراک سے کیا گیا۔
تقریب کا مقصد نوجوانوں کو ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے عملی تجاویز پیش کرنے اور خطے کے ماحولیاتی چیلنجز پر توجہ دینے کی ترغیب دینا تھا، خصوصاً گلشیئرز کے پگھلاؤ اور جنگلات کے کٹاؤ سے پیدا ہونے والے آبی تحفظ کے خطرات پر۔
اختتامی تقریب سے وائس چانسلر ڈاکٹر عطااللہ شاہ، ڈائریکٹر جنرل و جوائنٹ سیکریٹری برائے بین الاقوامی تعاون (EPA) نازیہ ضیاء علی اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ نوجوان ہی پاکستان کا مستقبل ہیں اور ان کی صلاحیتیں ملک کو ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن کر سکتی ہیں۔ مقررین نے کہا کہ یوتھ فار کلائمیٹ جیسے اقدامات ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے ناگزیر ہیں، کیونکہ نوجوان ہی اس عالمی چیلنج کے بہترین حل پیش کر سکتے ہیں۔
Comments are closed.