پاکستان کی خودمختاری اور افغان طالبان کے خلاف دفاعی عزم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

4

تحریر: خوشحال خان

اسلام ایک ایسا دین ہے جو امن، عدل اور توازن کی تعلیم دیتا ہے۔ تاہم جب ظلم، جبر اور تجاوز کی صورت پیدا ہو جائے تو اسلام مظلوم کو دفاع کا حق دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: “اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو، بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا” (سورۃ البقرہ: 190)۔

اس آیتِ مبارکہ میں واضح ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کسی قوم یا گروہ کی طرف سے جارحیت ہو تو اس کا منہ توڑ جواب دینا عین عدل ہے، مگر اس میں زیادتی یا ناانصافی نہ ہو۔

اسی طرح سورۃ الحج کی آیت نمبر 39 میں فرمایا گیا: “اجازت دی گئی ہے ان لوگوں کو جن پر ظلم کیا گیا کہ وہ (دفاع میں) لڑیں، اور بے شک اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔” یہ آیات ہمیں یہ اصول دیتی ہیں کہ دفاعی کارروائی نہ صرف جائز بلکہ فرض بن جاتی ہے جب کوئی دشمن سرزمین، عوام یا ایمان پر حملہ کرے۔

پاکستان نے حالیہ ایام میں اسی قرآنی اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنے دفاع کا حق استعمال کیا۔ افغانستان کی سرحد سے ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں اور سرحد پار سے مسلسل دراندازی کے بعد پاکستان کی مسلح افواج نے اپنی سرزمین کے تحفظ کے لیے بروقت اور مؤثر ردِعمل دیا۔ 11 اور 12 اکتوبر 2025 کی درمیانی شب افغانستان کی جانب سے ایک غیر اعلانیہ حملہ کیا گیا جس کا مقصد پاکستان کے سرحدی علاقوں کو غیر مستحکم کرنا اور ملک کے امن کو متاثر کرنا تھا۔ دشمن کی یہ کارروائی دراصل افغان طالبان کے کچھ عسکری دھڑوں، بھارتی ایجنسیوں اور دہشت گرد تنظیم فتنہ الخوارج کی مشترکہ منصوبہ بندی کا نتیجہ تھی۔ تاہم پاک فوج کے بہادر جوانوں نے نہ صرف یہ حملہ ناکام بنایا بلکہ دشمن کو شدید نقصان پہنچایا۔

یاد رہے اسلام ظلم کے مقابلے میں استقامت اور مزاحمت کا حکم دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جو اپنے مال، جان یا اہل و عیال کے دفاع میں مارا جائے وہ شہید ہے” (صحیح بخاری: 2480)

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اپنے وطن، عزت، اور اہلِ خانہ کے دفاع میں جان قربان کرنا نہ صرف جائز بلکہ باعثِ اجر ہے۔ اسی تعلیم کی روشنی میں پاکستانی فوج کے جوانوں نے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ حالیہ کارروائیوں میں 23 سپاہیوں نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ 29 زخمی ہوئے۔ ان کی قربانیاں اس بات کا اعلان ہیں کہ وطن کا دفاع محض فرض نہیں بلکہ ایمان کا تقاضا ہے۔

پاکستان کی کارروائیاں مکمل منصوبہ بندی اور درستگی کے ساتھ کی گئیں۔ دشمن کے متعدد تربیتی مراکز، اسلحہ ڈپو، اور کمانڈ پوسٹس کو نشانہ بنایا گیا، جن سے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو بھاری نقصان پہنچا۔ 200 سے زائد خوراک ہلاک ہوئے، اور کئی زخمی ہو کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ اس دوران پاکستان نے اسلامی اصولوں کی روشنی میں شہری آبادیوں کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے بھرپور احتیاط برتی تاکہ کسی بے گناہ فرد کو نقصان نہ پہنچے۔

یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی عوام کے درمیان کوئی دشمنی نہیں۔ پاکستان ہمیشہ افغان عوام کا خیر خواہ رہا ہے۔ افغان جنگ کے دوران پاکستان نے لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی، انہیں تحفظ، تعلیم اور روزگار فراہم کیا۔ لیکن جب انہی سرزمینوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے تو خاموشی جرم کے مترادف بن جاتی ہے۔ اس تنازع کی جڑ عوام نہیں بلکہ وہ دہشت گرد اور خوارج گروہ ہیں جو مذہب کے نام پر فساد پھیلا رہے ہیں، اور جنہیں بھارتی مالی و سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔ یہی گروہ افغان طالبان کے کچھ انتہا پسند حلقوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔

اسلام نے بغاوت، فرقہ واریت، اور فساد کو حرام قرار دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے: “اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا” (القصص: 77)۔ جو گروہ اپنے ہی بھائیوں کے خلاف تلوار اٹھائے، معصوموں کا خون بہائے، اور ریاست کے نظم کو چیلنج کرے، وہ اسلامی نہیں بلکہ خوارج کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ اسی فتن الخوارج کے خلاف پاکستان کی جنگ دراصل اسلام کے اصولِ امن و عدل کے مطابق ہے۔

اسلام بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ جنگ صرف ان سے کی جائے جو ظلم کرتے ہیں، نہ کہ بے گناہ انسانوں سے۔ یہ طرزِ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی فوج نہ صرف عسکری لحاظ سے منظم ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی اسلامی اصولوں کی پاسدار ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حالیہ جارحیت کے دوران طالبان کا وزیرِ خارجہ بھارت کے دورے پر تھا — وہی بھارت جو عرصہ دراز سے پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے اور افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ تھا جس کا مقصد پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا اور خطے میں بدامنی پھیلانا تھا۔ تاہم، پاک فوج نے اپنی حکمت، مہارت اور ایمان سے دشمن کو ایک بار پھر ناکامی سے دوچار کر دیا۔

پاکستان کا مؤقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام کے اصول بھی یہی کہتے ہیں کہ کسی مسلمان ملک کو دوسرے مسلمان ملک کے خلاف استعمال کرنا بدترین خیانت ہے۔ پاکستان نے امن، مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے بارہا کوشش کی کہ افغان حکومت ایسے عناصر کے خلاف عملی اقدامات کرے، مگر بدقسمتی سے طالبان انتظامیہ کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا۔

اسلامی تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ صلح اور امن کی خواہش کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے۔ لیکن اگر دشمن ظلم پر اتر آئے اور معصوم جانوں کو نشانہ بنائے تو خاموش رہنا بزدلی ہے۔ پاک فوج کا دفاعی اقدام اسی اصول کی عملی تعبیر ہے۔ یہ جنگ کسی قوم یا مذہب کے خلاف نہیں بلکہ فتنہ و فساد کے خلاف ہے، اور اس کا مقصد صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے میں امن کا قیام ہے۔

پاکستان کے عوام اور افواجِ پاکستان کے درمیان مضبوط رشتہ ایمان، ایثار اور حب الوطنی کا ہے۔ قوم اپنے محافظوں کے ساتھ ایک صف میں کھڑی ہے۔ پاکستان کی خودمختاری، غیرت اور دفاع ناقابلِ تسخیر ہے، اور جب بات وطن کی حرمت کی ہو، تو یہ قوم ایک فولادی دیوار بن جاتی ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کا یہ اقدام نہ صرف شرعی طور پر جائز بلکہ فرض کے درجے میں آتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ظلم کے مقابلے میں مزاحمت ایمان کی علامت ہے، اور یہی راستہ پاکستان نے اختیار کیا ہے۔ یہی وہ راہ ہے جو خطے میں دیرپا امن، انصاف اور عدل کی ضمانت بن سکتی ہے۔

پاکستان زندہ باد — افواجِ پاکستان پائندہ باد

Web Desk

Comments are closed.